|

وقتِ اشاعت :   January 25 – 2017

کوئٹہ: سی پیک سمیت ترقیاتی پروجیکٹس کے مخالف نہیں خدشات و تحفظات دور کئے جائیں لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کی موجودگی ،60فیصد بلوچوں کو شناختی کارڈز کی عدم فراہمی ، 10لاکھ بلوچ کی دوسرے علاقوں میں ہجرت اور بلوچ کے موجودہ بحرانی حالات میں کیسے ممکن ہے کہ صاف شفاف مردم شماری ہو گی جب علاقوں میں لوگ ہی نہیں تو کس کو شمار کیا جائیگا 1998ء میں اتنی بڑی تعداد میں شناختی کارڈز اور سرکاری دستاویزات حاصل نہیں کی تھیں اب تو افغانستان کی اکثریتی آبادی نے بلوچستان سے شناختی کارڈز حاصل کر لئے ہیں وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق 30لاکھ افغان مہاجرین شہروں میں آباد ہیں جبکہ ہمارے مطابق ساڑھے پانچ لاکھ افغان خاندانوں کو بلوچستان سے شناختی کارڈز کا اجراء کیا جا چکا ہے اگر بلوچستان میں افغان مہاجرین موجود نہیں تو مرکزی حکومت کس کی مدت میں دسمبر 2017ء تک توسیع کر چکی ہے من گھڑت باتوں اور اتحادی کی خوشنودی کی خاطر بلوچ قوم اور بلوچستانیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے ان خیالات کا اظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں پارٹی سیکرٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کی زیر صدارت کوئٹہ میں منعقد مرکزی کابینہ ، مرکزی کمیٹی اور ضلعی عہدیداروں کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا گیا اس موقع پر پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ، مرکزی فنانس سیکرٹری ملک نصیر شاہوانی ، مرکزی خواتین سیکرٹری زینت شاہوانی ، مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری موسیٰ بلوچ ، مرکزی کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری ، جاوید بلوچ ، جمال لانگو ، سردار عمران بنگلزئی ، پروفیسر شہناز بلوچ ، شکیلہ نوید دہوار ،منورہ سلطانہ کوئٹہ کے قائمقام صدر یونس بلوچ ،سید ناصر علی شاہ ہزارہ ، ملک محی الدین لہڑی ،لقمان کاکڑ ، اسد سفیر شاہوانی ، ملک ابراہیم شاہوانی ، ڈاکٹر علی احمد قمبرانی، ڈاکٹر سید محمد ہزارہ ، حاجی باسط لہڑی ، حاجی رمضان ہزارہ سمیت دیگر موجود تھے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں ساڑھے پانچ لاکھ افغان خاندانوں کی موجودگی میں کسی بھی صورت صاف شفاف مردم شماری ممکن نہیں قانونی ، شرعی ، بین الاقوامی مسلمہ اصولوں کے مطابق بھی یہ صاف شفاف نہیں ہو سکتے بلوچ ، پشتون ، ہزارہ ، پنجابی سمیت دیگر اقوام کے حقوق ضبط کرنے کے مترادف ہوگا معاشرے میں مہاجرین کی وجہ سے مزید مسائل جنم لیں گے اتنی بڑی تعداد میں غیر ملکیوں کی موجودگی میں مردم شماری قانونی تصور نہیں کئے جا سکتے بلوچستان نیشنل پارٹی سی پیک ، مردم شماری کی مخالف نہیں ہمارے تحفظ و خدشات جو اصولوں پر مبنی حقائق ہیں جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں بی این پی ہمیشہ ترقی پسند خیالات و افکار و بلوچ پشتون سمیت تمام اقوام کو شیروشکر کی جدوجہد کی ہے تنگ نظری کی سیاست سے ہم خود نفرت کرتے ہیں بلوچ معاشرے نے تنگ نظری کی سیاست کو تسلیم نہیں کیا سی پیک میں حکمرانوں کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ فوری طور پر قانون سازی کریں تاکہ جو خدشات ہیں وہ کسی حد تک ختم ہو سکیں انفرااسٹریکچر سمیت تمام جملہ مسائل کے حل اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گوادر کے عوام کو پانی کی فراہمی کیلئے اقدامات کئے جائیں صرف باتوں اور دعوؤں سے کام نہیں چلے گا اجلاس میں کہا گیا ہے کہ 1998ء میں بلوچستان میں مردم شماری کرائی گئی ہے اس وقت لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین موجود تھے لیکن اتنی بڑی تعداد میں انہوں نے شناختی کارڈز و دستاویزات نہیں بنائے گئے 20سالوں میں سیاسی اثرورسوخ پیسے کے عیوض ساڑھے پانچ لاکھ افغان خاندانوں نے شناختی کارڈز حاصل کر لئے ہیں انتخابی فہرستوں میں ان کے ناموں کا اندراج کیا جا چکا ہے اب ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ صوبائی حکومت کا دعویٰ یا مرکزی حکومت کا وزرات داخلہ کہتی ہے کہ 30لاکھ افغان مہاجرین ہیں جبکہ صوبائی حکومت کہتی ہے کہ افغان مہاجرین ہے ہی نہیں تو پھر توسیع کن کو دی گئی ہم حکمرانوں کی مجبوریاں سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے اتحادیوں کی خوشنودی کی خاطر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرر ہے ہیں مردم شماری قوموں کی موت و ذیست کا مسئلہ ہے اس میں جس کا مثبت کردار رہا وہ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا غیر ملکی مہاجرین کسی بھی زبان ، نسل ، قوم سے تعلق رکھتا ہو اسے اجازت نہیں دی جا سکتی کہ انہیں شمار کیا جائے بلوچ کی 60فیصد آبادی شناختی کارڈز کے حصول سے محروم ہے ان کی رجسٹریشن بھی نہیں ہوئی جنرل مشرف کے دور سے شروع ہونے والی انسرجنسی کے وجہ سے جو مخدوش حالات تھے جس کی وجہ سے 10لاکھ سے زائد بلوچ کوہلو ، ڈیرہ بگٹی ، مکران ، جھالاوان سمیت دیگر علاقوں سے ہجرت کر چکے ہیں جب لوگ ہی نہیں ہوں گے تو ان علاقوں میں کیسی خانہ شماری اور مردم شماری ہو گی اسی طرح سے حالات مخدوش ہیں ایک حلقے میں انتخابی مہم نہیں چلائی جا سکتی انتخابات نہیں ہوتے تو گھر گھر جاکر خانہ شماری ، مردم شماری کیسے ممکن ہو گی سرکاری ملازم رسک کیسے اٹھائیں گے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ ہماری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ بلوچستان میں رواداری کی سیاست کی جائے تاکہ محکوم اقوام آپس میں متحد ہو کر اپنی قومی حقوق کیلئے جدوجہد کریں بی این پی مثبت سیاست اور عوام کے اجتماعی قومی مفادات کیلئے حقیقی جدوجہد کر رہی ہے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ مردم شماری ضرورت کریں لیکن مسائل کو پہلے حل کریں اس کے مردم شماری کرائی جائے تو اس میں کوئی قباعت نہیں ہوگی درج بالا مسائل کی موجودگی میں ممکن نہیں کہ مردم شماری صاف شفاف ہو 2011ء میں خانہ شماری کے بعد انکشاف ہوا تھا کہ پشتون اضلاع میں کئی کئی سو فیصد آبادی میں اضافہ ہوا ہے جو صرف اور صرف مہاجرین کی وجہ سے ہوا تھا اس دور کے سیکرٹری شماریات کا بیان ریکارڈ پر ہے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ تمام بلوچستانی باشعور ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے کوشش کریں کہ صاف شفاف مردم شماری بلوچستان میں کرائی جائے جو تمام اقوام کیلئے بہتر اور مثبت عمل ہوگا –