|

وقتِ اشاعت :   January 28 – 2017

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے نیب سے اسحاق ڈار کی منی لانڈرنگ سے متعلق تمام تفصیلات پیر تک طلب کرلی ہیں اور عدالت نے وزیراعظم کے وکیل کو وزیراعظم کے خاندان کی جائیداد کے بٹوارے کے حوالے سے تفصیلات جمع کرانے کیلئے پیر تک کی مہلت دے دی ۔ کیس کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بے گناہ افراد مقدمہ لڑتے ہیں معافیاں قبول نہیں کرتے ہم نے دیکھنا ہے کہ اسحاق ڈار کو معافی کیسے دی گئی انہوں نے معافی نامے سے پہلے اعترافی بیان ریکارڈ کرایا یا بعد میں اگر معافی پہلے دی گئی اور بعد میں بیان ریکارڈ ہوا تو پھر ملزم گواہ بن جاتا ہے بظاہر لگتاہے کہ پہلے اسحاق ڈار کو معافی دی گئی پھر اعترافی بیان ریکارڈ کرایا گیا اگر ایسا ہے تو پھر اس اعترافی بیان کی بہت اہمیت ہے ۔بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ عدالت فیصلہ نہیں کر رہی تاہم عدالت سست روی کا شکار نہیں ہے، ہم کسی سے مرعوب نہیں ہوں گے اور قانون پر فیصلہ دیں گے لوگوں کی خواہشات پر نہیں ، انصاف کے تقاضے پورے ہونے تک کیس سنیں گے اور یہ کیس تب تک سنیں گے جب تک مطمئن نہیں ہوتے۔ جمعہ کے روز کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس عظمت سعیدشیخ اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی ۔ سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ گزشتہ روز جائیداد کی تفصیلات طلب کی گئی تھیں جائیداد اور تحائف کی تقسیم سے متعلق تفصیلات جمع کرانے کیلئے پیر تک کا وقت دیا جائے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ٹی وی چینل پر چل رہا تھا کہ آپ لوگوں نے تمام تفصیلات پیش کردی ہیں اس لئے آپ کو کہا تھا کہ تفصیلات ہمارے پاس نہیں وہ جمع کرادیں اب آپ وقت مانگ رہے ہیں اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ میرے موکل کا کہنا ہے کہ تفصیلات جمع کرادینگے لیکن وقت چاہیے جس پر عدالت نے وزیراعظم کے وکیل کو جائیداد کی تفصیلات جمع کرانے کیلئے پیر تک مہلت دیدی ۔ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے دلائل میں کہا کہ اسحاق ڈار پر الزام ہے کہ انہوں نے مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان دیا تھا جس میں 14.866 ملین روپے منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا الزام میں یہ بھی کہا گیا کہ مسعود قاضی اور طلب مسعود قاضی کے نام سے وزیراعظم کے بھائی کیلئے اکاؤنٹ کھولے گئے جس پر گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا اسحاق ڈار اپنے بیان حلفی سے انکاری ہیں جس پر شاہدحامد نے کہا کہ اسحاق ڈار اپنے بیان کی مکمل تردید کرتے ہیں فوجی بغاوت کے بعد ان کو پہلے گھر میں نظر بند کیا اور تعاون پر حکومت میں شمولیت کی پیش کش کی گئی ایک پہلے سے لکھے گئے بیان پر زبردستی دستخط کروائے گئے دو ہزار ایک تک فوج کی تحویل میں رہے جسٹس ا عجا ز افضل نے کہا کہ اگر بیان ریکارڈ کرنے والا مجسٹریٹ اس بیان کی تصدیق نہیں کرتا تو اس کی حیثیت کاغذ کے ٹکرے سے زیادہ نہیں ہے اعترافی بیان عدالت عالیہ پہلے بھی مسترد کرچکی ہے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت عالیہ رٹ پٹیشن میں ایسا فیصلہ کیسے دے سکتی ہے شاہد حامد نے کہا کہ یہ بیان صرف کاغذ کا ایک ٹکرا ہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ کاغذ کا ٹکرا نہیں شواہد کا حصہ ہے جس پر کبھی کارروائی نہیں ہوئی نیب ریفرنس تحقیقات قانون کے تحت نہ ہونے پر خارج ہوا ہائی کورٹ نے اس کیس کو تکنیکی بنیادوں پر ختم کیا تھا اس پر شاہد حامد نے کہا کہ نیب ریفرنس میں بھی وہی الزامات لگائے گئے جو ایف آئی اے نے اپنے مقدمے میں لگائے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ جب پروٹیکشن قانون بنا تو نواز شریف وزیراعظم اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے جس پر شاہد حامد نے کہا کہ اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے نہ ہی ایم این اے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اسحاق ڈار منی لانڈرنگ کیس میں چیئرمین نیب کو اپیل دائر کرنی چاہیے تھی اگر وہ اپیل سپریم کورٹ آتی تو ہم دوبارہ اپیل کرنے کا حکم دیتے شریف فیملی کیخلاف 1994ء کی ایف آئی آر اور دو ہزار کے ایف آئی آر میں کوئی تعلق نہیں اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کا تعلق شریف خاندان کے فنانشل کرائم سے بھی کوئی تعلق نہیں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا کسی بھی ملزم کو شامل تفتیش کئے بغیر کیس ختم کردیا گیا جس پر شاہد حامد نے کہا کہ اس وقت حمزہ شہباز کے علاوہ سب لوگ بیرون ملک تھے جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے استفسار کیا کہ اگر کوئی شامل تفتیش نہ ہو تو بارہ ارب روپے کا معاملہ ختم کردیا جائیگا نیب ریفرنس قانون کے تحت تفصیلات نہ ہونے پر خارج ہوا ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا فارن کرنسی اکاؤنٹ کو اکنامک ریفارم سے پروٹیکشن دی گئی ہے فارن کرنسی اکاؤنٹ جو پاکستان میں ہوں ان کو پروٹیکشن دی گئی ہے بیرون ملک فارن کرنسی اکاؤنٹ کو نہیں دی گئی جس پر شاہد حامد نے کہا کہ کیس دو گراؤنڈز پر ختم کیا گیا جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا اسحاق ڈار کو وعدہ معاف گواہ پہلے بنایا گیا یا بعد میں اس پر شاہد حامد نے کہا کہ اسحاق ڈار کو اعترافی بیان دینے سے قبل وعدہ معاف گواہ بنایا گیا تھا حدیبیہ پیپرز ملز کا ابتدائی ریفرنس ستائیس مارچ دو ہزار کو بنایا گیا حتمی ریفرنس سولہ نومبر دو ہزار کو بنایا گیا تھا ۔ ریفری جج نے گیارہ مارچ دو ہزار چودہ کو دوبارہ تفتیش کے اختلافی فیصلے میں تفتیش نہ کرنے کا فیصلہ دیا جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا اسحاق ڈار کو معافی دی گئی تھی اگر معافی نہیں دی گئی تو یہ ایک ملزم کا بیان ہے کیونکہ وعدہ معاف گواہ کو معافی کے بعد اس کا بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے اس طرح اس طرح کے معاملے میں ملزم کو معافی کی پیشکش کی جاتی ہے معافی کرنے کے بعد ایسا بیان دیا جاسکتا ہے کئی کیسز میں ملزم معافی کی پیشکش قبول نہیں کرتے اس کیس میں یہ معاملہ بہت اہم ہے عدالت نے نیب سے اسحاق ڈار کی منی لانڈرنگ کی تمام تفصیلات طلب کرلی ۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ بتایا جائے کہ اسحاق ڈار کو مشروط معافی ملی یا غیر مشروط معافی نامہ دیا گیاتھا ہم دیکھنا چاہتے ہیں اسحاق ڈار کو کیسے معافی دی گئی پراسکیوٹر نیب نے کہا کہ عدالت کو اس حوالے سے ریکارڈ پیش کرینگے شاہد حامد نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس وقت کے چیئرمین نیب نے اسحاق ڈار کو خو د کہاکہ تمام ریکارڈ چھان مارا مگر کوئی بدعنوانی ثا بت نہیں ہوئی جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ اسحاق ڈار نے ا عترافی بیان پہلے ریکارڈ یا بعدمیں اگر معافی پہلے دی گئی تو پھر بیان ریکارڈ ہوا تو پھر ملزم گواہ بن جاتا ہے بظاہر لگتا ہے کہ پہلے اسحاق ڈار کو معافی دی گئی پھر اعترافی بیان ریکارڈ کرایا گیا اگر ایسا ہے تو پھر یہ بیان بہت اہمیت کا حامل ہے معافی مشروط یاغیر مشروط طور پر ہوتی ہے انہوں نے پراسکیوٹر نیب سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ اسحاق ڈار کے بیان معافی دینے کے بعد ریکارڈ کیا گیا یا پہلے انہوں نے کہا کہ جلا وطنی کے دور میں ہونے والی تفتیش میں شریف خاندان کو کبھی نہیں بلایا گیا جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کیا اسحاق ڈار کو بیان دینے سے پہلے معافی مل گئی یا بعد میں ملی شاہد حامد نے کہا کہ اسحاق ڈار کو پہلے معافی مل گئی تھی اعترافی بیان بعد میں ریکارڈ ہوا ۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ معافی ملنے کے بعد اسحاق ڈار ملزم نہیں رہے تھے ان کا اعترافی بیان بطور ملزم نہیں بے گناہ افراد لڑتے ہیں معافیاں قبول نہیں کرتے انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کی امیدوں پر فیصلہ نہیں کرسکتے آئینی عدالت ہے انصاف کی فراہمی تک یہ کیس سنتی رہے گی لوگ کہہ رہے ہیں کہ کیس کو آہستہ سن رہے ہیں لیکن تب تک سنیں جب تک مطمئن نہیں ہوجاتے اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی