کوئٹہ:پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چےئرمین رکن قومی اسمبلی محترم مشر محمود خان اچکزئی نے گزشتہ روز ایک نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے قیام کے بعد جب صوبوں کو ختم کرکے ون یونٹ بنایا گیا تو اس وقت ملک کے تمام سامراج دشمن اینٹی فیوڈل اور پشتون ،بلوچ، سندھی ، سرائیکی اور بنگالی قوموں کے رہنماؤں نے ملکر ون یونٹ کے خاتمے کیلئے ایک قومی سیاسی جمہوری جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے بنالی ۔ جس کا بنیادی نقطہ ون یونٹ کا خاتمہ اور قوموں کے لسانی ثقافتی بنیادوں پر نئے صوبوں کی تشکیل اورپشتونوں کے بولان سے لیکر چترال تک متحدہ پشتون قومی وحدت یعنی صوبے کی تشکیل اس کانام (افغانیہ ، پشتونخوا یا پشتونستان )ہوگا اور فیڈریشن کے پاس صرف چار محکمے ہونگے اور تمام اقوام کے وسائل پر ان کے واک واختیار کو تسلیم کرنے اور خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے اس سلسلے میں 1956میں ہائیکورٹ میں بیان بھی دیا کہ کیونکر ایک متحدہ پشتون صوبے کی اشد ضرورت ہے مگر جب 1970میں نیشنل عوامی پارٹی اور ہمارے اکابرین کے قربانیوں کے نتیجے میں ون یونٹ کا خاتمہ ممکن ہوا تو اس دوران نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت نے پارٹی کے منشور سے انحراف کرتے ہوئے متحدہ پشتون قومی وحدت یعنی بولان سے چترال پشتون صوبے کے قیام کے بجائے ریاست قلات کو غیر فطری طور پر برٹش بلوچستان جو کہ اصل میں برٹش افغانستان تھا میں شامل کرکے موجودہ غیرفطری صوبے کا قیام عمل میں لایا گیا اس پر خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کے پارٹی کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے اور نیشنل عوامی پارٹی پشتونخوا کی تشکیل کی گئی جس کا بنیادی مقصد ملک کے اندر متصل تمام پشتون علاقے جنوبی پشتونخوا بشمول اٹک ،میانوالی اور خیبر پشتونخوا صوبے پر مشتمل متحدہ پشتون قومی وحدت کے قیام کیلئے جدوجہد کو جاری رکھا ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فاٹا کی آئینی حیثیت الگ ہے ہم پر ملک کے آئین کے تمام280آرٹیکل لاگو ہوتے ہیں جبکہ فاٹا پر صرف 4آرٹیکل کا اطلاق ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اس کی بین الاقوامی مضمرات بھی ہے اور یہ ایک حساس مسئلہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اصلاحات ہم فاٹا ہی کیلئے چارہے ہیں اور اس سلسلے میں چار صورتیں ہوسکتی ہے پہلی یہ کہ جو چار آرٹیکل فاٹاپر لاگو ہورہے ہیں ان میں انسانی بنیادی ضروریات ، انسانی حقوق اور اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ون مین ون ووٹ، ہیومین رائٹس اور تمام بنیادی سہولیات لاکر اصلاحات کی جائیں۔ اور ہماری تجویز ہوگی کہ سات ایجنسیوں اور چھ ایف آر علاقے اوران سات ایجنسیوں کیلئے ایک منتخب کونسل تشکیل کرے یا ان سات ایجنسیوں پر مشتمل کونسل ہو اور اس میں یہ کرنا ہوگا کہ پولیٹیکل ایجنٹ کے اختیارات ختم کرکے وہ تمام اختیارات کونسل کو تفویض کی جائیں۔ چونکہ فاٹا کا اپنا گورنر نہیں ہے اور خیبر پختونخوا کا گورنر صوبے کیلئے ان کے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہے مگر اسی گورنر کے اختیارات ایف سی آر کے ذریعے فاٹا کیلئے بڑے خطرناک ہیں اور ان کے اختیارات لوگوں کے گھروں کو مسمار کرسکتا ہے ہزاروں لوگوں کو جیلوں میں ڈال سکتا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا ۔ اس طرح فاٹا کیلئے ہم منتخب گورنر دے دیں اور منتخب گورنر آئین پاکستان کے تحت صدر مملکت کے ساتھ تعلق ہوگا دوسری پوزیشن یہ ہوسکتی ہے کہ گلگت بلتستان یا کشمیر کی طرح اپنا وزیر اعظم ہوسکتا ہے تو فاٹا کے عوام کے ساتھ بھی یہ صلاح ومشورہ کیا جاسکتا ہے ، تیسری پوزیشن یہ ہوسکتی ہے فاٹا کے عوام کی مرضی یا ان کے منشاء کے برخلاف انہیں خیبر پختونخوا میں ضم کرنا ہو اور چوتھی پوزیشن ہے ہوسکتی ہے کہ انہیں اپنا صوبہ دیا جائے ۔ اب یہ امر تشویش ناک ہے اصلاحات فاٹا میں ہورہے ہیں اور اس کا فیصلہ لاہور یا پھر کوئٹہ یا پھر کسی اور علاقے کے لوگ کریں۔ اوراسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ فاٹا کے عوام کے ساتھ ساتھ ان کے منتخب پارلیمنٹرین ارکان قومی اسمبلی وسینیٹ کی واضح اکثریت نے موجودہ اصلاحات وسفارشات کو مسترد کیا ہے ۔کیونکہ فاٹا کے اصلاحات سے متعلق کمیٹی نے فاٹا کے عوام اوران کے منتخب پارلیمنٹرین کو اعتماد میں نہیں لیا ہے ۔ فاٹا کے 18ارکان پارلیمنٹ میں 2سے 3کے علاوہ باقی تمام ارکان نے موجودہ اصلاحات کمیٹی کے سفارشات سے اتفاق نہیں کرتے ۔ فاٹا کے عوام ایف سی آر کے ان تمام نکات کو جو غیر جمہوری ہے کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا نے پاکستان کے فوج کو کم سے کم ایک لاکھ نوجوان خدمات کیلئے دےئے ہیں اس وقت فاٹا کے لوگ محب وطن ہیں لیکن جب وہ حقوق کی بات کرتے ہیں تو انہیں باغی کہا جاتا ہے اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ پورے پشتون قوم کو دہشتگردکی نظر سے دیکھا جارہا ہے ۔ اور اب فاٹا میں ایسے حالات پیدا کےئے گئے ہیں وہاں پر ہم سے کوئی بھی شریف آدمی بشمول اسفندیار خان ، آفتاب شیر پاؤ ،مولانا فضل الرحمن صاحب سمیت کوئی نہیں جا سکتا اور اگر جانا بھی چاہے تو اجازت لینی پڑتی ہے لیکن وہاں پر سینکڑوں غیر ملکیوں کو لاکر انہیں اتنا مضبوط بنایا گیا کہ ان کے ذریعے ایک ہزار سے زائد پشتونوں قبائلی مشران ، منتخب نمائندگان ، علماء کرام تعلیم یافتہ طبقوں اور عوام کا قتل عام کیا گیا ۔یہاں لوگوں کے گھروں ، مارکیٹوں کو مسمار کیا گیا اور مسحودقبیلے کوبحیثیت قبیلہ اپنے علاقے سے بیدخل کیا گیا ان کے کروڑوں روپے سے تعمیر کردہ گھروں کو مسمار کرنے کے بعد اب ان کے عیوض چار لاکھ دےئے جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود فاٹا کے عوام نے پاکستان کے خلاف نعرہ نہیں لگایا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے قومی تحریک کو نقصان سے بچانے کیلئے ہر وقت صبر اور برداشت کا مظاہرہ کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ فاٹا کے عوام ہی فاٹا کے مالک ہے اور وہ فاٹا میں تعلیمی اداروں ، ہسپتالوں سمیت تمام ترقی وخوشحالی کے منصوبے چاہتے ہیں لیکن ان کی آئینی پوزیشن کے حوالے سے فاٹا کے عوام سے پوچھنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ غیر ملکیوں کو فاٹا میں بسانے اور 2001سے قبل فاٹا میں کسی بے گناہ شخص کا قتل نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی خاتون کی بے احترامی ہوئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر فاٹا کے عوام اپنی مرضی سے کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو وہ درست ہے ورنہ باہر سے ان کی مرضی ومنشا کے برخلاف کوئی فیصلہ مسلط نہ کیا جائے ۔اور ہم نے 2011میں ایک پمفلٹ کے ذریعے بھی یہ واضح پیغام دیا تھا کہ فاٹا کے عوام کو یہ یقین دہانی کرانی ہوگی کہ فاٹا ان کا ہے اور ہم نے اب ملک کے وزیر اعظم نواز شریف سے بھی ملاقات کرکے ان پر واضح کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کا مسئلہ اتنا آسان نہیں اور فاٹا میں تعمیر وترقی کیلئے جو رقم خرچ ہوگی وہ کسی بیوروکریٹ یا دو افراد کی بجائے فاٹا کے عوام کے منتخب پارلیمنٹرین کے ذریعے خرچ کرنا ہوگا ۔ اور ان سے یہ کہا کہ فاٹا کے عوام کے منتخب پارلیمنٹرین اور دیگر نمائندوں سے ملاقات کرکے ان کی رائے کے مطابق اصلاحات کی جائیں۔اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ کل پچھتانے کے بجائے آج فاٹا کے عوام سے پوچھ کر ان کی رائے کا احترام کیا جائے۔اور ہم یہ کہتے ہیں کہ ملک کے تمام عوام فاٹا کے عوام کا شکریہ ادا کرے کیونکہ انہوں نے بہت سے قربانیاں دی تکالیف ، مصائب اور مظالم برداشت کےئے ہیں ۔ اور فاٹا کے عوام منتخب نمائندوں اور تعلیم یافتہ افراد کے ذریعے ایک مکینزم بنایا جائے اور جو بھی فیصلہ ہو اس میں فاٹا کے تمام مکاتب فکر نمائندوں سے رائے لی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اے پی ڈی ایم کا قیام اور 2008کے انتخابات سے بائیکاٹ کا فیصلہ تمام پارٹیوں نواز شریف ، عمران خان ، جماعت اسلامی سمیت تمام سیاسی قیادت نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ ایک آمر جنرل مشرف کے ماتحت کسی انتخابات میں ہم حصہ نہیں لینگے ۔ اور 12مئی کو کراچی میں کےئے گئے قتل عام کی وجہ سے ایم کیو ایم کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں بنائینگے ۔ اوروکلاء کی جاری تحریک کا مکمل تائید وحمایت کرینگے ان نکات پر سب نے ملکر دستخط کےئے ۔ انہوں نے مردم شماری سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ مردم شماری میں جنوبی پشتونخوا اورپشتون عوام کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش نہیں کررہے ہیں۔ ماضی میں فرنگی دور کے 1901,1911,1921,1931,1941,1951,1961تک مردم شماریوں میں پشتون اور بلوچ عوام تقریباً برابر تھے اور یہ بھی واضح رہے کہ اس وقت بھی پشتون عوام کی مردم شماری ایک واضح نظام کے ہوتی تھی جب کہ اس کے برعکس قلات اور دیگر ریاستوں میں مردم شماری ایک منشی کے ذریعے اندازے کے ذریعے کی جاتی تھی۔ اور مراعات کی خاطر ہر قبیلے کا سربراہ اپنی قبیلے کی آبادی دوسرے قبیلے کی آبادی سے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ۔ اور جب 1971میں انہیں سیاسی اختیارات بلوچ بھائیوں کے ہاتھ آیا تو انہوں نے مری اور بگٹی کے علاقے کی آبادی 500فیصد تک بڑھائی گئی ۔اور خاران ، مکران اور دیگر علاقوں کی بھی یہی صورتحال تھی۔ اور پھر جب 1998میں مردم شماری ہونی تھی توہم نے واضح اعلان کیا کہ ایک ایسے مکینزم کے تحت اس صوبے میں مردم شماری کی جائے کہ جس میں پشتون بلوچ دونوں اقوام متفق ہو۔ اور اس طرح ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ قومی برابری کے اصول کو اپناتے ہوئے یہاں پر وزیر اعلیٰ اور گورنر کے عہدوں کو بائی روٹیشن رکھی جائیں اور میڈیکل اور انجینئرنگ کی نشستوں اور تمام شعبوں میں برابری کے اصول کو اپنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں پشتون بلوچ کا تاریخی رشتہ رہا ہے اور یہ دو واحد قوم ہے جو آپس میں ملتے ہوئے ( ماموں )کے الفاظ سے اور رشتے سے پکارتے ہیں۔لہٰذا ہمیں دو برادر اقوام کے تاریخی رشتہ کو دیکھتے ہوئے ان مسائل کو حل کرنا ہوگا ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 1998میں جب مردم شماری ہوئی تو اس وقت افغان کڈوال عوام آج کی نسبت کئی زیادہ آباد تھے اور آج تو سب افغان کڈوال عوام جا چکے ہیں اور اس وقت انہوں نے مردم شماری کو قبول کی مگر آج مردم شماری کیلئے تیار نہیں۔اور اسی طرح 1907کے انگریز گزیٹےئر میں واضح طور پر لکھا ہے کہ Quetta is Absolutely Afghan Cityجبکہ بلوچ کی کوئی آبادی نہیں اور 9فیصد براہوئی کی ہے جو درہ بولان کے سنگم میں آباد ہے ۔