|

وقتِ اشاعت :   February 28 – 2017

اسلام آباد:سینیٹ فنکشنل کمیٹی کمی ترقی یافتہ علاقہ جات کے چیئرمین محمدعثمان خان کاکٹر نے کہا ہے کہ بین الاقوامی اداروں کی طرف سے دیئے گئے منظور شدہ37ملین ڈالر فنڈ میں سے بالخصوص شمالی علاقہ جات میں گلیشیئر ز کی حفاظت کے علاوہ بلوچستان میں موجود بین الاقوامی اثاثہ قرار دیئے جانے والے ہزاروں سال قدیمی صنوبر کے جنگلات کے تحفظ کے لیے فنڈزاور سوات ، چترال ، بالا کوٹ ، آوران ، زیارت کے زلزلہ زدگان کی ابھی تک مکمل بحالی نہیں ہوئی امداد فوری طور پر فراہم کی جائے ۔ چیئرمین کمیٹی نے مزید کہا کہ تیزی سے تبدیل ہونے والی موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مستقل منصوبہ بندی کی جائے ۔ شدید برفباری کے موسم میں بلوچستان کے سرد ترین علاقوں کان بتوزئی ، کوژک ، زیارت ، مستونگ ، قلات میں بند ہونے والے قومی شاہرات کو کھولنے کیلئے این ایچ اے جدید مشینری دے ۔ ملک بھر میں اور بالخصوص ناگہانی آفات کے علاقوں میں بلڈنگ کنڑول کورڈز پر سختی سے عمل کر کے ان علاقوں میں زلزلہ سے بچاؤ کے گھر تعمیر کیے جائیں ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ دہشت گردی نے ماحول کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔موسمیاتی تبدیلی کے باعث بڑے خطرات کا سامنا ہے ۔ پگھلنے والے سوات کے گلیشیئرز کو بچانے کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ۔ حکمران ایسے غافل رہے تو خدشہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث سرسبز سندھ ،پنجاب اور سارا ملک ویرانے میں تبدیل ہو جائے گا۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ زیارت اور بالا کوٹ کے لوگ چیخ رہے ہیں لوگوں کو گھر نہیں بنا کر دیئے گئے ۔ سینیٹر سردار اعظم خان موسیٰ خیل نے کہاکہ بلوچستان اور دوسرے پسماندہ علاقوں میں موسمیاتی وماحولیاتی اثرات زیادہ ہیں ۔ سینیٹر مولانا تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ اسلام آباد میں پولن الرجی کے خاتمے ، کراچی میں بلڈرز کی طرف سے درختوں کی کٹائی ،کچرے کو جلانے کے بارے میں اقدامات نہیں اٹھائے گئے ۔ سیکرٹری وزارت نے آگاہ کیا کہ 100 بلین ڈالر کا بین الاقوامی فنڈ قائم کیا گیا جس میں سے پاکستان کو صرف 37 ملین دیا گیا ہے ۔ جو گلیشیئر (II)، سیلاب سے نقصانات کے لئے ہے۔ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کیلئے صوبائی حکومتیں منصوبے تیار کریں گی۔ بلوچستان میں جلد ورکشاپ کریں گے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کی ورکشاپس میں سینیٹرز کو بھی مدعو کیا جائے تاکہ بہتر تجاویز دی جاسکیں ۔ سیکرٹری نے بتایا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد تحفظ ماحولیات ایجنسی کا دائرہ کار صرف اسلام آباد تک محدود ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہمیں 18 ویں ترمیم یاد نہ کرائیں اگر 18 ویں ترمیم پر من وعن عمل کر لیتے تو نئی دس بارہ وزارتیں نہ بنتی ۔ جب ذمہ داری آتی ہے تو بہانہ فنڈز کا بنالیا جاتا ہے ۔ کوئلے اور تھرمل سے بننے والے بجلی گھروں کے منصوبوں کی بجائے گیس ، دھوپ، ہوا سے فائدہ لیا جا سکتا ہے ۔ ماحولیات کو خراب کرنے والے ان منصوبوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی ۔ جو صنعتیں ماحولیات کیلئے نقصان دہ ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے ۔ این ڈی ایم اے حکام نے آگاہ کیا کہ تمام صوبوں بمعہ پسماندہ علاقوں میں ناگہانی آفات پر یکساں مدد کی جاتی ہے ۔ 2015 کے زلزلہ متاثرین کیلئے وفاق نے ساڑھے چھ ارب مختص کیئے ۔ آوران کیلئے 16 ہزار گھر بنا کر دینے کا منصوبہ بنایا گیا۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ این ڈی ایم کے بنائے گئے گھروں سے اتفاق نہیں ۔ زلزلہ زدہ علاقوں میں زلزلہ بچاؤ کے تحت گھر بنائیں جائیں تاکہ لوگ بار بار بے گھر نہ ہو۔ این ڈی ایم حکام نے بتایا کہ بلڈنگ سیفٹی کوڈ کے حوالے سے آج صدر ہاؤس میں اجلاس منعقد ہو رہا ہے ۔ مظفرآباد کوٹلی سیتاں میں لینڈ سلائیڈنگ متاثرین کی مدد بھی کی گئی ۔ سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ آوران میں 16 ہزار گھروں کی تعداد درست نہیں بتائی گئی ۔ صرف بااثر لوگوں کے گھر بنا کر دیئے گئے ۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ سعودی عرب کاوفد آوران پہنچ گیا ۔ حکومتی ادارے نہیں پہنچے۔ سیکرٹری وزارت نے بتایا کہ وزارت 19 بین الاقوامی معاہدوں پردستخط کنندہ ہے ۔وزارت کاکام صرف پالیسی اور رابطہ کاری ہے ۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں پچھلے سال صرف تین کروڑ کا بجٹ دیا گیا ۔ اس سال سرسبز پاکستان اور شجر کاری مہم کیلئے ارب کی خصوصی گرانٹ دی گئی ہے ۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہی کیلئے علاقائی زبانوں میں نصاب تیا رکیا جائے اور کور کا حصہ بنایا جائے جس کا آغاز اسلام آباد سے ہو۔