پاکستان کے صوبہ پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کی تلاش کے عمل کے دوران کسی خاص کمیونٹی کو ہدف نہیں بنایا جا رہا۔
لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسی کارروائیوں کے دوران عام شہریوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے حکومت اس پر معذرت خواہ ہے تاہم ان کارروائیوں کے بغیر دہشت گردوں کو ان کے مذموم مقاصد میں ناکام نہیں بنایا جا سکتا۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے رہنما امیر مقام کی سربراہی میں ایک وفد نے منگل کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی اور پنجاب میں پشتون آبادی سے مبینہ طور پر ‘نسلی تعصب’ پر مبنی سلوک کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
وزیرِ قانون نے کہا کہ ‘وزیراعلیٰ نے امیر مقام اور وفد کے شرکا کو یقین دلایا ہے کہ پنجاب میں آباد پختون ہمارے بھائی ہیں اور انھیں یہاں رہنے اور کاروبار کرنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی اور کو ہے۔’
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘دہشت گردوں کی تلاش کے لیے جو کومبنگ اور آئی بی او کرنے پڑتے ہیں ان کے دوران عام شہری کو بھی بسا اوقات ایسے حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں لیکن ان کے بغیر دہشت گردوں کو ان کے مذموم مقاصد میں ناکام نہیں بنایا جا سکتا۔’
رانا ثنا اللہ نے اس معاملے کا سیاسی فائدہ اٹھائے جانے کی مذمت کی اور کہا کہ یہ ملک دشمنی ہے۔
‘سندھ اور کے پی کے میں نام نہاد سیاسی جماعتیں اور رہنما سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتے ہوئے پنجاب کے حلاف نفرت پھیلا کر ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔’
انھوں نے کہا کہ ان اقدمات میں کسی کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا اور کسی بھی کمیونٹی کو خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہمیں مل کر اس عفریت کا مقابلہ کرنا ہے۔
اس موقع پر امیر مقام کا کہنا تھا کہ دہشت گرد کی کوئی قوم اور نسل نہیں ہوتی اور پختونوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنے نقصانات اٹھائے اتنے کسی نے نہیں اٹھائے۔
انھوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ سرچ آپریشن کے دوران ٹیم میں خواتین اہلکار اور مقامی نمائندے کو بھی موجود ہونا چاہیے جبکہ اس سلسلے میں فوکل پرسن کا تعین اور ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جانی چاہیے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے نتیجے میں آپریشن رد الفساد کے آغاز کے بعد سے پنجاب میں پشتون آبادی سے نسلی امتیاز برتنے کی خبریں پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر گرم ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی نے پختونوں سے ‘نسلی امتیاز’ روا رکھے جانے کے خلاف ایک قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی ہے جس میں صوبائی حکومتوں پر گرفتار افراد کو فوری رہا کرنے اور ‘انتقامی پالیسی’ ترک کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
اسی سلسلے میں پیر کو حقوقِ انسانی کے پاکستانی کمیشن نے بھی پنجاب میں حکام کی جانب سے شدت پسندی اور دہشت گردی پر قابو پانے کی مہم کے دوران ‘بظاہر نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک’ کے واقعات پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔
ایک بیان میں کمیشن نے کہا ہے کہ پنجاب کے کچھ اضلاع کی انتظامیہ باقاعدہ یا زبانی احکامات جاری کر رہی ہے کہ عوام ایسے مشکوک افراد پر نظر رکھیں جو پشتون یا فاٹا سے تعلق رکھنے والے دکھائی دیتے ہوں۔
بیان میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ ‘پختون افراد کو ان کی ظاہری وضع قطع کے باعث ہراساں کیے جانے اور مشتبہ بنانے سے بچانے کے لیے حفاظتی اقدامات کا اعلان کیا جائے۔’