|

وقتِ اشاعت :   March 9 – 2017

کوئٹہ : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (پجار) کا چھوتا مرکزی کمیٹی کا اجلاس مورخہ ۶، ۷ مارچ کو زیر صدارت مرکزی آرگنائزر کراچی میں منعقد ہوا ۔ اجلاس کا آغاز بی ایس او کے شہید ورنا حاصل جان رند ، شہدائے بلوچستان اور دنیا بھر کے انقلابی شہداء کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کی گئی اور مرکزی آرگنائزر کی افتتاحی ریمارکس کے بعد سیکریٹری رپورٹ، بین الاقوامی صورتحال اور بلوچستان تناظر، تنظیمی امور اور آئیندہ کے لائحہ عمل کے اہم ترین ایجنڈے سمیت تنظیمی ڈھانچے ، ڈسپلن، انقلابی اقدار، فائنانس ، ویب سائیٹ و پبلیکیشن، تنقید برائے تعمیر اور تنظیم اگلے مرحلے میں کے علاوہ دیگر اہم پہلووٗں پر تفصیلی بحث کی گئی اور فیصلہ جات کیئے گئے۔ ایجنڈوں پر بحث کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم جس بدلتے ہوئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں یہ ماضی کے تمام فارمولوں کے ٹوٹنے اور نئی دوستیاں اور دشمنیوں کے بننے کا دور ہے جس میں تمام سامراجی ریاستی نئی صف بندیا ں کرنے میں مصروف ہیں جس میں امریکی سامراج کی کمزوری کے سبب خطے کے نئے اْبھرتے ہوئے سامراجیوں کیلئے اپنے تسلط کو بڑھانے کے مواقع میسر آئے ہیں جس میں چین سرِ فہرست ہے اور بہت دھوم دھام سے اپنی سامراجی عزائم کو تقویت دے رہا ہے جس سے نا صرف یہ کہ یہاں استحصال اور جبر کا نیا دور شروع ہوگا بلکہ (او، بی ، او، آر) اور (سی پیک) جیسی سامراجی منصوبوں سے بہت بڑی ڈیموگرافک تبدیلیاں بھی رونما ہو رہی ہیں۔ پہلے سے جنگ زدہ اور مسلسل قومی و طبقاتی جبر کا شکار بلوچ دھرتی مزید سامراجی یلغار اور استحصال کا آماجگاہ بنتا جا رہا ہے جہاں بلوچ عوام کی زندگیاںآئے روز اجیرن ہوتی جا رہی ہیں۔ تعلیمی صورتحال یہ ہیکہ لاہور اور کراچی سے کْھلے عام چھپنے والی کتابیں اور آزادی سے پڑھے جانے والی کتابوں کو بلوچستان میں نا لائبریریوں اور دکانوں میں رکھنے کی اجازت ہے اور ناہی کوئی بھی نوجوان اپنے پاس کتابیں رکھ کر گوم سکتا ہے بلکہ اس کے بر عکس بندوق رکھنا کوئی جرم نہیں ہے اور صحت اور روزگار کا سوچنا بھی بلوچستان میں دیوانوں کا خواب بن چْکا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں اغوا اور قتل ہوئے نوجوان زخموں پر مِرچ مسالہ کا اضافہ ہیں جبکہ ہر طرف خوف، مایوسی، بیگانگی اور بے راہ روی کا راج قائم ہے اور اس کے بر عکس نام نہاد قومی پارٹیاں حقیقی مسائل پر پردہ ڈالنے کیلئے مردم شماری اور افغان مہاجرین جیسے ووٹ بنک بڑھانے اور اپنے ذاتی مفادات کو تحفظ دینے والے نان اشوز کو مْدّا بنا کر سارے حقیقی مسائل سے بالاتر رکھنے کی مکارانہ چال چل رہے ہیں جبکہ دوسری طرف انتہاپسندی بھی بلوچ نوجوانوں کو بند گلی کی دلدل میں پھنسا کر ریاستی جبر میں اضافے کا موجب بنی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس منتشر اور پْرتضادات حالات کے اندر بی ایس او کا نظریاتی پروگرام ہی وہ واحد راستہ دکھاتا ہے جو سامراج کی توسیع پسندانہ عزائم اور نام نہاد پارٹیوں کی دھوکہ دہی کا پردہ چاک کرتے ہوئے جدوجہد کے درست سمت کی طرف نوجوانوں کو راغب کر سکتی ہے اور بی ایس او کا نظریاتی پروگرام ایک بار پھر نوجوانوں میں تیزی کے ساتھ مقبول پو رہا ہے اور نوجوان جوق در جوق بی ایس او کے حقیقی انقلابی پروگرام کے ساتھ جْڑ رہے ہیں تاکہ یرغمال ہوئے تعلیمی اداروں کو غنڈہ گرد عناصر سے آزاد کروا کر پھر سے تعلیمی اور سیاسی ماحول کو زندہ کیا جا سکے اور بلوچ سماج سمیت دنیا بھر کے محکوم و محنتکش عوام کو جبر و استحصال کے زنجیروں سے نجات ملے۔ آخر میں تنظیم کے فائنانس کے شْعبے میں مختلف اہداف طے کرنے کے ساتھ ویب سائیٹ اور پبلیکیشن سمیت کتابوں اور مختلف شعبوں کے ڈیویلپمنٹ کے حوالے سے حکمت عملی مرتب کی گئی اور ساتھ ہی ساتھ تنظیم کے کام کے بڑھ جانے کی وجہ سے پانچ رْکنی آرگنائزنگ کمیٹی میں اضافہ کرتے ہوئے حب زون سے حسن بلوچ اور نصیر آباد سے رحمت بلوچ کو باقائدہ مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی میں شامل کر لیا گیا اور کمیٹی کی تعداد سات ارکان پر مشتمل کر دی گئی۔