کابل : افغانستان میں تقریباً تین دہائیوں بعد روس کی واپسی نے اس جنگ زدہ ملک کو واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان زور آزمائی کے نئے اکھاڑے میں تبدیل کر دیا ہے۔ ماسکو کریمیا اور شام میں امریکا کو چیلنج کرنے کے بعد اب افغانستان میں ایک بار پھر دوبارہ قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک تجزیا تی رپو رٹ کے مطا بق 14 اپریل کو ماسکو نے افغانستان کے مسئلے پر 11 ملکی اجلاس بلایا، لیکن اس سے ایک دن قبل امریکا نے افغان صوبے ننگر ہار کے ضلعے اچین پر دنیا کا سب سے بڑا غیر ایٹمی بم، جس کی تباہ کن صلاحیت کو نمایاں کرنے کے لیے اسے ’تمام بموں کی ماں’ کا نام بھی دیا گیا ہے، گرا دیا۔ ماسکو کے بلائے گئے اجلاس میں افغانستان، چین، ایران، پاکستان، بھارت کے علاوہ پانچ سابق سوویت ریاستیں بھی مدعو تھیں۔امریکا کو بھی اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے عذر پیش کیا کہ اْسے اجلاس کے ایجنڈے سے پیشگی آگاہ نہیں کیا گیا، لہٰذا وہ شرکت نہیں کر سکتا۔ ننگر ہار پر حملہ امریکی عذر کی حقیقت کو واضح کر گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا روس کشمکش بھی عیاں ہو گئی۔ننگر ہار پر امریکی حملے سے پہلے ہی خطے میں سرد جنگ دور کی سیاست نیا موڑ لے چکی ہے۔ سرد جنگ کے اتحادی اپنی پوزیشن اور مقاصد بدل کر سرگرم ہو چکے ہیں۔ کھیل کے تمام کھلاڑی افغان سرزمین پر ایک اور سرد جنگ کے لیے تیار ہیں۔2001 میں افغانستان پر امریکی یلغار کی حمایت کرنے والے روس نے دو سال سے غیر جانبدار حیثیت ترک کر کے افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج کی موجودگی کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کر دیا ہے۔دسمبر 2016 میں ماسکو نے افغان مسئلہ پر سہ فریقی مذاکرات کا آغاز کیا جس میں اسلام آباد اور بیجنگ شریک ہوئے۔ فروری 2017 میں مشاورتی عمل کے دوسرے مرحلے میں پاکستان اور چین کے علاوہ افغانستان، ایران اور بھارت بھی شریک ہوئے۔ تیسرا راؤنڈ 14 اپریل کو ہوا۔اجلاس میں دعوت کے باوجود امریکا کی غیر حاضری اور ننگر ہار پر تازہ حملہ، علاقائی اور عالمی سطح پر نئے بلاکس کی تشکیل کا واضح اشارہ دیتے ہیں۔ اب تک کی صورت حال میں روس، چین، پاکستان، ایران اور وسط ایشیائی ریاستیں ایک طرف کھڑی نظر آتی ہیں جبکہ دوسری طرف امریکا کے ساتھ افغانستان، بھارت اور نیٹو اتحادی کھڑے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔افغانستان میں روس کی واپسی کے محرکات میں تبدیل ہوتا عالمی نظام، ابھرتے چین کی طاقت، امریکا کی عالمی نظام پر کمزور پڑتی گرفت شامل ہیں۔ روس ان حالات میں جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ مستحکم کرنا چاہتا ہے۔روس مغربی پابندیوں کی وجہ سے اپنے معاشی استحکام کے لیے جنوبی ایشیا میں موجود تیل و گیس منڈی پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہے۔ روس اپنے ہتھیاروں کے لیے بھی نئے گاہکوں کی تلاش میں ہے۔ اس کے علاوہ روس طاقت کے نئے مرکز چین کے ساتھ اپنے مقاصد کو بھی مربوط کرنا چاہتا ہے، جس میں چین کی ’ون بیلٹ ون روڈ’ یا ‘ایک پٹی ایک سڑک’ پالیسی اہمیت کی حامل ہے۔افغانستان میں روس اور امریکا کی ترجیحات بھی یکسر مختلف ہیں۔ روس، داعش کی افغانستان میں شاخ اسلامک اسٹیٹ آف خراسان کو خطرہ سمجھتا ہے جبکہ امریکا اور اس کے اتحادی طالبان کو افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ گردانتے ہیں۔ماسکو کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ اس کے رابطے امن مذاکرات تک محدود ہیں لیکن امریکا کو یقین ہے کہ روس افغان طالبان کو ہتھیار فراہم کر رہا ہے۔ روس کا مؤقف ہے کہ امریکا وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ واقع افغان صوبوں میں داعش کے خلاف کارروائیاں کرنے کے بجائے ان کا حوصلہ بڑھا رہا ہے۔پاکستان کو بھی افغان حکومت اور امریکا سے شکایت ہے کہ وہ اسے مطلوب دہشتگردوں کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کر رہے، بلکہ افغان انٹیلی جنس بھارت کے ساتھ مل کر کالعدم تحریک طالبان اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ان حالات میں ماسکو اور اسلام آباد ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ رواں سال 31 مارچ کو روس کے فوجی وفد نے چیف آف جنرل اسٹاف اسراکوف سرگئی یوریوچ کی قیادت میں پاکستان کے قبائلی علاقے کا دورہ کیا جسے ایک غیر معمولی دورہ تصور کیا گیا۔ اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان گرم جوش تعلقات کی یہ پہلی مثال نہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ اس سے پہلے ستمبر 2016 میں مشترکہ فوجی مشقیں بھی کی تھیں۔ 2014 اور 2015 میں دونوں ملکوں کی بحری افواج نے بھی مشترکہ مشقیں کیں، جنہیں ’عریبین مون سون’ کا نام دیا گیا تھا۔روس کے فوجی وفد کو افغان سرحد سے ملحقہ 13 ہزار کلومیٹر پر محیط قبائلی علاقوں میں پاک فوج کے آپریشنز میں کامیابیوں کو دکھانے کے لیے کروایا گیا۔