|

وقتِ اشاعت :   May 8 – 2017

افغان صدر اشرف غنی کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں عسکریت پسند تنظیم داعش کا سربراہ عبدالحسیب صوبہ ننگرہار میں خصوصی فورسز کے آپریشن کے دوران مارا جاچکا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق افغان صدر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق عبدالحسیب کو گذشتہ سال حافظ سعید خان کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد افغانستان میں داعش کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ عبدالحسیب رواں سال مارچ میں کابل کے مرکزی ملٹری ہسپتال میں ہونے والے حملے سمیت افغانستان میں ہونے والے کئی ہائی پروفائل حملوں کے احکامات جاری کرچکا تھا۔ خیال رہے کہ گذشتہ ماہ امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) کے ترجمان نے بھی ان خیالات کا اظہار کیا تھا کہ عبدالحسیب ننگرہار میں امریکی اور اٖفغان اسپیشل فورسز کی مشترکہ کارروائی کے دوران مارا جاچکا ہے تاہم اس کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔ واضح رہے کہ ننگرہار میں ہونے اس آپریشن میں 2 امریکی فوجی اہلکار بھی ہلاک ہوئے تھے۔ افغانستان میں داعش کا مقامی گروہ جسے داعش خراساں کا نام بھی دیا جاتا ہے، 2015 سے افغان سرزمین پر فعال ہے اور طالبان کے ساتھ ساتھ مقامی اور امریکی فورسز سے بھی جنگ میں مصروف ہے۔ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ داعش خراساں عراق اور شام میں موجود مرکزی گروہ سے روابط رکھتی ہے تاہم بیشتر آپریشنز میں خود مختار بھی ہے۔ ڈرون اور فضائی حملوں کی مدد سے امریکی اور افغان اسپیشل فورسز اس سال داعش خراساں کے خلاف متعدد آپریشنز کرچکی ہیں، جن میں تنظیم کے درجنوں جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ آپریشنز زیادہ تر پاکستان کے سرحدی علاقے کے نزدیک موجود افغان صوبے ننگرہار میں کیے گئے۔ افغانستان سے اس گروہ کا صفایا امریکا کی اہم ترجیحات میں شامل ہے، گذشتہ ماہ بھی امریکا کی جانب سے ننگرہار میں سب سے بڑا غیر جوہری بم گرایا گیا تھا جس میں داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں 94 جنگجوؤں سمیت 4 کمانڈر ہلاک ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ افغانستان کے صوبے ننگرہار کو داعش کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، جہاں داعش کے 600 سے 800 جنگجو موجود ہیں اور امریکی و اتحادی افواج کو اسی صوبے میں سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا ہے۔ خیال رہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب امریکا کی جانب سے کسی بھی ملک میں سب سے بڑا غیر جوہری بم استعمال کیا گیا۔