کابل: افغان دارالحکومت کابل میں غیر ملکی سفارت خانوں کے علاقے میں دھماکے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 80 ہوگئی ہے جبکہ 350 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق افغانی طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان یا کسی بھی ذیلی گروپ نے یہ دھماکا نہیں کیا ہے بلکہ وہ اس دھماکے کی پرزور مذمت کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب داعش کی جانب سے بھی اب تک اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔
یہ دھماکا کابل کے علاقے وزیر اکبر خان کے نزدیک ایک ٹرک میں اس مقام پر ہوا جہاں متعدد غیر ملکی سفارت خانے موجود ہیں جبکہ کابل صدارتی محل بھی قریب ہی واقع ہے۔ عام افغانی شہریوں کے علاوہ سفارتی عملے کے بھی کئی افراد اس حملے میں شدید زخمی ہوئے ہیں جن میں پاکستانی عملہ بھی شامل ہے۔
کابل میں جرمن سفارت خانے کے قریب آج صبح مقامی وقت کے مطابق 8 بجکر 20 منٹ پر ہونے والے اس بم دھماکے میں مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ مختلف خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق دھماکا بہت ہی شدید تھا جس کی آواز بہت دور تک سنی گئی جبکہ سفارت خانوں سے لے کر اس جگہ سے سیکڑوں میٹر فاصلے پر مکانات تک کے شیشے ٹوٹ گئے۔
افغان پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے اس علاقے کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں جبکہ اس بارے میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر میں دھماکے والے مقام پر دھویں کے سیاہ بادل دکھائی دے رہے ہیں۔
افغان سیکیورٹی حکام نے اس بم دھماکے میں اب تک اب تک 80 ہلاکتوں اور 350 افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کردی ہے اور مقامی ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ فی الحال کسی دہشت گرد گروپ نے اس بم دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے جبکہ تحریکِ طالبان نے اس واقعے پر اپنا مذمتی بیان جاری کردیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس حملے میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔
اس واقعے کو اس سال افغانستان میں ہونے والی سب سے بڑی دہشت گردی کی کارروائی بھی قرار دیا جارہا ہے اور خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں آنے والے گھنٹوں کے دوران مزید اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ اب بھی کئی زخمیوں کی حالت انتہائی تشویشناک بتائی جارہی ہے۔