|

وقتِ اشاعت :   July 4 – 2017

کو ئٹہ: نیشنل پارٹی کے سر براہ ووفاقی وزیر میر حاصل خان بزنجو نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات خراب ہونے کی صورت میں بلوچستان پر منفی اثرات پڑیں گے ۔

تمام اداروں کو اس صورتحال میں ذمہ داری کا احساس کر نا ہو گا افغانستان اور پاکستان کو تمام معاملات سنجیدگی سے طے کر نا ہو گا نیشنل پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں براہمداغ بگٹی سمیت ان تمام ناراض لو گوں سے بات چیت کا آغاز کیا اور ملک آنے پر رضامندی بھی ظاہر کی گئی ہماری حکومت ختم ہونے کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہوا ۔

بلوچستان میں ہر سیاسی جماعت 2018 کے انتخابات کے لئے تیاریاں کر رہی ہے جمعیت کے ساتھ ضمنی انتخابات میں حمایت اس لئے کی کہ آئندہ انتخابات میں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسمنٹ ہو گی بلوچستان نیشنل پارٹی نے ضمنی انتخابات کے بارے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا ۔

پشتونخواملی عوامی پارٹی سے کوئی سیاسی الائنس نہیں تھا صرف حکومت بنا نے تک اتحاد تھا نہ پہلے سیاسی الائنس ہوا اور نہ آئندہ کوئی اتحاد کا امکان ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں حال احوال کے پروگرام سے اظہار خیال کر تے ہوئے کیامیر حاصل خان بزنجو نے کہا ہے کہ بلوچستان میں شروع دن سے بحرانی کیفیت کی صورتحال تھی۔

1990 سے لے کر آج تک بلوچستان بحرانوں کا شکار رہا اس وقت بھی حالات بہتر نظر نہیں آرہے اس حوالے سے ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ادارے بشمول عدلیہ ، پارلیمنٹ اور دوسرے ادارے محتاط رہے پہلے بھی عراق اور سعودی عرب کے درمیان جو کشیدگی پائی گئی تھی ۔

اس میں ہمیں مشکلات کا سامنا کر نا پڑا اور اس وقت سعودی عرب اور ایران کے درمیان جو تعلقات خرابی کی طرف جا رہے ہیں اس میں بھی ہمیں نقصان اٹھانے کا خدشہ ہے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ پاکستان کے اچھے تعلقات ہے اور دونوں ممالک کے درمیان پل کا کردار ادا کر نا چا ہئے اور دونوں کے تعلقات میں غیر جانبدار رہنا چا ہئے ۔

ان حالات میں پاکستان کو بین الاقوامی طور پر بھی مشکلات کا شکار ہے افغانستان میں جو صورتحال ہے اس سے ملک کے اندرونی معاملات بھی خراب ہو سکتے ہیں بہتر اسی میں ہے کہ دونوں ممالک حالات کو بہتری کی طرف لے آئے ۔

تمام اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے صورتحال پیدا نہ کریں کہ کسی انتشار کا شکار بننے پاناما کیس پر حکومت نے جے آئی ٹی بنائی اور عدالت کے احترام کر تے ہوئے وزیراعظم سمیت دیگر سیاستدان اور اعلیٰ آفیسران جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے اور عدالت نے جو حکم دیا اس کا احترام کیا گیا ۔

یقیناًعدلیہ ذمہ دار ہے باقی ادارے بھی ذمہ داری کا ثبوت دیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان صورتحال کو سنجیدگی سے لینا ہو گا انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں خطرہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مشکلات کے باعث ہمیں خطرات در پیش ہونگے اور ہمیں اس وقت اندرونی حالات کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ ملک کی بہت بڑا پارلیمانی وفد افغانستان گئے اور وہاں اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ہوئی اور ان کے بھی خواہش ہے کہ حالات بہتری کی طرف گامزن ہے انہوں نے کہا ہے کہ خدا نہ کرے کہ ایسا حالات پیدا ہو کہ جس کا اثر بلوچستان پر پڑے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں ایسے کوئی صورتحال نہیں ہے اور بلوچستان میں جس طرح صورتحال ہے صوبائی حکومت کو ملٹری فورسز کی ضرورت ہو تی ہے کیونکہ یہاں پر مذہبی دہشتگردی اور مزاحمتی قوتیں سر گرم ہے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ 80 کی دہائی میں ہم سے جو غلطیاں ہوئی اس کا ازالہ ہم بھگت رہے ہیں مشرف کے زمانے میں بھی جو حالات پیدا ہوئے اب موجودہ حکومت ان حالات سے نکالنے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف راحیل شریف کا اتحادی ممالک کا سربراہ بننا ان کا ذاتی فیصلہ تھا حکومت کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کو حکومت سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا ہے کہ حکومت جے آئی ٹی کے حوالے سے مکمل تعاون کر رہے ہیں عدلیہ اور تمام ادارے ذمہ داری کا احساس کریں انہوں نے کہا ہے کہ گوادر جب ترقی کرے گا تو باہر سے بڑی آبادی آئے گی اس پر نیشنل پارٹی کے تحفظات ہے اور ان تحفظات کو دور کرنے اور آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے قانون سازی کی جا رہی ہے اور جلد بلوچستان اسمبلی سے بل پاس کیا جائیگا ۔

انہوں نے کہا ہے کہ پشتونخواملی عوامی پارٹی سے نیشنل پارٹی کا کوئی سیاسی الائنس نہیں تھا صرف حکومت بنانے کے حوالے سے اتحاد تھا کیونکہ جہاں پر پشتونخواملی عوامی پارٹی کی اکثریت موجود ہے وہاں پر نیشنل پارٹی کی اکثریت نہیں ہے ۔

جہاں پر نیشنل پارٹی کی اکثریت ہے وہاں پر پشتونخواملی عوامی پارٹی کی اکثریت نہیں ہے تو اس لئے ضمنی انتخابات میں جمعیت علماء اسلام کی حمایت کی کیونکہ2018 کے انتخابات میں ہر سیاسی جماعت اپنے منشور کے مطابق حصہ لیں گے اور جمعیت علماء اسلام سے آئندہ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو گی سیاسی الائنس نہیں ہو گا ۔

انہوں نے کہا ہے کہ نیشنل پارٹی اور ان کے اتحادی حکومت نے بلوچستان کے مسائل پر کافی حد تک قابو پا لیا لیکن ڈھائی سال میں جو اہداف تھے وہ پورا نہ کر سکے کیونکہ بلوچستان کو جو بجٹ ملتی ہے اس بجٹ سے بلوچستان ترقی نہیں کر سکتا اس وقت بلوچستان کو 25000 سکول چا ہئے اس کے لئے بھی بجٹ نہیں ہے ۔