|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2017

لندن: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ، سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان میں قوم پرست تحریک کو کچلنے کے لیے ریاستی اداروں نے دوسرے علاقوں سے دہشت گردی بلوچستان میں درآمد کی ہے۔

قیام پاکستان کے 70 برس مکمل ہونے کے تناظر میں پاکستان کے ماضی، حال اور مستقبل پر سیاستدانوں کے ساتھ انٹرویوز پر مشتمل بی بی سی اردو کی خصوصی سیریز، وڑن پاکستان میں بات کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں جاری دہشت گردی کو سمجھنا کوئی ریاضی کا سوال نہیں، وہاں سب جانتے ہیں کہ ’مذہبی انتہا پسندی پھیلانے والی تنظیموں کے لوگ کھلے عام گھوم پھر سکتے ہیں اور ان کے پاس اداروں کے (شناختی) کارڈ بھی ہیں۔ ان کو لائسنس ٹْو کِل دیا ہوا ہے۔‘

سابق وزیر اعلیٰ کے مطابق وہ ایسی تصاویر دکھا سکتے ہیں، جن میں مطلوبہ جرائم پیشہ دہشت گرد، اسٹیبلشمینٹ کے ساتھ بغل گیر کھڑے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ انڈیا (بلوچستان میں) ملوث نہیں ہوگا، وہ ہوگا، لیکن اسے یہ موقع بھی ہم نے دیا ہے، اگر ہم کسی کے معاملات میں مداخلت کریں گے تو وہ بھی کریں گے۔

یہ دونوں طرف سے ہورہا ہے، جو نہیں ہونا چاہیے۔‘سردار مینگل نے سوال کیا کہ ’ہم نے کیا افغانستان میں مداخلت نہیں کی؟ کیا ہم اس سے خود کو بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں؟ کیا مجاہدین ہم نے نہیں پالے، کیا طالبان ہم نے نہیں پالے؟ کیا یہ اسلام کے نام پر تھا یا پاکستان کے لیے تھا یا پھر ڈالروں کی وجہ سے تھا۔ ہم نے ڈالروں کی وجہ سے پاکستان کو بیچ ڈالا۔

‘صوبے میں حالات کیسے بہتر کیے جاسکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ شدت پسندوں سے بات کرنا چاہیے۔ ’جب آئی آر اے اور برطانیہ کی حکومت بات کر سکتے ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں کر سکتے؟‘انھوں نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان کو اپنا حصہ نہیں سمجھا، اسے صرف ایک کالونی سمجھا ہے اسے پنجاب کی کالونی سمجھا ہے، جب تک بلوچستان کو حصہ نہیں سمجھا جائے گا مسائل حل نہیں ہوں گے۔

‘ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کو اب تک تو اللہ ہی بچاتا آیا ہے، لیکن جیسے حالات ہیں پتا نہیں وہ بھی بچا پائے گا یا نہیں؟ اگر ملک کو ساتھ رکھنا ہے تو پھر حکمرانوں کو عقل کے ناخن لینا پڑیں گے۔

‘ملک سے متعلق محمد علی جناح کے وڑن پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ 70 برسوں میں جتنے بھی حکمران آئے چاہے وہ ووٹ سے آئے یا بندوق کے ذریعے، ان سب نے جناح صاحب کے وڑن کو مسخ ہی کیا ہے۔ان کے بقول جناح کے وڑن میں سنہ 1940 کی قرارداد تھی، جس میں تمام صوبوں کو خود مختاری دی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کیا آج کے پاکستان میں انھیں وہ خود مختاری حاصل ہے۔ صوبوں کو اگر حیثیت دی جاتی تو پاکستان نہ ٹوٹتا۔ جناح صاحب کے وڑن کی سکرات جناح صاحب کی وفات سے شروع ہوگئی تھی اور موت پاکستان کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ہوگئی تھی۔‘انھوں نے کہا کہ باعث مجبوری ریاست کے جغرافیہ کو تسلیم کرتے ہیں، سیاستدان بھی مجبور ہیں، صوبے بھی مجبور ہیں۔

ان کے بقول بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کی ذمہ دار وہ جماعتیں، وہ ادارے اور حکومتیں ہیں جنھوں نے وہاں نوجوانوں کو مایوسی کی اس حد تک دھکیلا ہے جو وہ اب علیحدگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔

سردار اختر مینگل نے بلوچستان میں شدت پسندوں کی جانب سے معصوم لوگوں کو قتل کیے جانے کی شدید مذمت کی۔انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیاستی سرگرمی کو تباہ کیا گیا ہے، سیاسی کارکنوں کو غائب کیا گیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ نوجوان انتہائی مایوس ہیں۔انھوں نے کہا کہ جب تک اسٹیبلشمینٹ اپنی سوچ نہیں بدلے گی، پاکستان تاریکی کی طرف جائے گا۔ ’مجھے پاکستان میں تاریکی نظر آرہی ہے، کوئی قیادت نہیں جو روشنی کی جانب لے جائے۔ 

دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ بلوچ قوم کو لاشوں کے ذریعے تحریک اور جدوجہد ستبردار نہیں کیا جاسکتانواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا جانے کا افسوس ہے بتائیں کہ ہمارے جو لوگ شہید کیے گئے ان کو انصاف کون دیگا جھالاؤان اور ساراوان میں ڈیتھ اسکواڈ کو ایک بار پھر پوسٹنگ دیدی گئی ہے بلوچ قوم اپنی تحریک اور جدوجہد سے کسی صورت دستبردار نہیں ہونگے ،یہ بات انہوں نے جمعرات کے روز کوئٹہ پریس کلب میں بی این پی کے زیر اہتمام پارٹی رہنماؤں ملک نوید دہوار، ناصر جان بلوچ اور ظریف دہوار کی یاد میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیاْ۔

تعزیتی ریفرنس سے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، مرکزی نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ،ملک نصیر احمد شاہوانی،منظور بلوچ،منیر جالب بلوچ،میر عبدالرؤف مینگل،غلام نبی مری،جاوید بلوچ،ڈاکٹر شہناز نصیر بلوچ، یونس بلوچ،سعید کرد،راشدہ ہارون بلوچ،ڈاکٹر علی احمد قمبرانی،ملک کومیل دہوار،ماما گل محمد دہوارودیگر نے بھی خطاب کیا۔

سردار اختر جان مینگل نے کہاکہ جس دن سے کوئٹہ آیا ہوں تب سے شہداء کی یا د میں تعزیتی پروگراموں میں شرکت کررہا ہوں ملک نوید دہوار اور ان کی خاندان سمیت پورے قبیلے کی بلوچ قومی تحریک کیلئے خدمات ناقابل فراموش ہے ہر دور میں قومی تحریک کا ساتھ دیا۔

انہوں نے کہاکہ ہمارے پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو شہید کیا جارہا ہے مگر ہم اس سے مرعوب ہونیوالے نہیں آج کی تعزیتی ریفرنس میں ہال میں اتنی بڑی تعداد میں کارکنوں کی موجودگی اس بات کا پیغام ہے کہ ہم اپنی تحریک کے ساتھ ہیں اور جب ہم نے اپنی پارٹی بنائی تو اس کے جھنڈے میں سرخ رنگ شامل کیا وہ ہمارے شہداء کے لہو کا رنگ ہے۔

انہوں نے کہاکہ2013کے انتخابات میں ٹھپے لگا کر من پسندوں کو کامیاب کرایا گیا ہمیں علم تھا کہ 15جولائی2017کے انتخابات میں بھی ایسا ہی ہوگا ہمیں ان انتخابات میں جانے کا شوق نہیں تھا مگر این اے260پر ہم صرف اس لیے انتخابات میں گئے تاکہ بتاسکیں کہ یہ حلقہ اور یہاں کا مینڈیٹ ہمارا ہے مخالفین کو تمام تر حمایت اور فنڈز کے باوجود ہماری جماعت نے 37ہزار ووٹ لیے جو ہماری پارٹی کا راستہ روکنے والوں کی ناکامی ہے ۔

جب ہماری جماعت نے جلسوں کا سلسلہ شروع کیا تھا کوئٹہ سمیت مختلف شہروں میں ہونیوالے جلسوں میں ہزاروں افراد شریک ہوتے تھے حالانکہ نہ تو ہماری جماعت حکومت میں ہے نہ ہمارے پاس اقتدار اور وزارتیں ہیں اس کے باوجود اتنے لوگوں کی ہمارے جلسوں میں شامل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بی این پی کو امید کی آخری کرن سمجھتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ یہ بات افسوسناک ہے کہ جب ہم جلسے کرنے گئے تو ہم سے کہا جاتا تھا کہ سیکورٹی کے خطرات ہے مگر ہم نے اس وقت بھی واضح کیا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں مارنے والے کون ہے وہ کسی بھی لباس ،شکل یا رنگ میں ہو ہمیں انہیں جانتے ہیں اور وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ جب سانحہ8اگست ہوا تو اس میں وکلاء و دیگر بڑی تعداد میں شہید ہوئے اربوں روپے کے ہیلی کاپٹر خریدنے والے حکمرانوں کے دور میں جب سول ہسپتال کے شعبہ حادثات کے سامنے دھماکہ ہوا تو حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے ٹراما سینٹر فعال نہیں تھا جس سے 14سے زائد وکلاء صرف خون نہ ملنے کی وجہ سے شہید ہوئے اس سے بھی زیادہ نااہلی کے زخمیوں کو سی ایم ایچ تک پہنچانے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا

ایدھی ایمبولینس والوں کا بھلا ہو کہ وہ زخمیوں کو لے جاتے رہے مگر اس سے زیادہ افسوس کے راستوں صرف اس لیے بند کیا تھا کہ وزیراعظم،وزیراعلیٰ اور دیگر وی آئی پیز نے سی ایم ایچ کا دورہ کرنا تھا ان کی پروٹوکول کی وجہ سے سڑک بند تھے ہم کب تک ناانصافی اور ظلم کو برداشت کریں کب تک خاموش رہے اور کب تک صرف تعزیتی ریفرنس کرتے رہیں ۔

اب ہماری قوم کے سامنے دو ہی راستے ہیں ایک تو یہ ہم بلوچستان کے حقوق سے دستبردار ہو جائے تو پھر حکومت وزارت اورسب کچھ ہے اور دوسرا راستہ ہمارے باپ دادا کا ہے کہ ہم اپنے جھنڈے کو بلند رکھیں اور ہم دوسرا راستہ ہی اختیار کرینگے اور اپنے باپ داد اکی جدوجہد کو آگے بڑھائینگے ۔

انہوں نے کہاکہ ٹی وی چینل پر سابق وزیراعظم نواز شریف کی تقریر سننے کا موقع ملا وہ کہہ رہے تھے کہ انہیں اقتدار سے ہٹا کر ظلم نہیں بلکہ زیادتی کی گئی ہے ہم بھی کہتے ہیں کہ ان سے ظلم ہوا ہے اور یہ پہلی نہیں بلکہ تیسری بار ہوا ہے ہم میاں نواز شریف سے کہتے ہیں کہ آپ ایک مرتبہ پھر ڈیل کرکے اقتدار میں آجائینگے مگر ہمارے وہ پیارے جن کو ہم سے چھین لیاگیا جن کو ان کی گھروالے آج بھی یاد کرتے ہیں ان کو انصاف کون دیگا انہیں انصاف کہاں سے ملے گا ۔

جب ہم آہیں بھرتے ہیں تو یہ بھی لوگوں کو برا لگتا ہے ہم سی پیک پر بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ سی پیک پر بات نہ کرے توکیا ہمیں بتایا جائے کہ ہم عائشہ گلالئی کی بات کرے جس کا ہمارا کلچر اجازت نہیں دیتا الیکٹرانک میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہاکہ جس پر چینل دیکھے یہ معاملہ چل رہا ہے مگر کسی ٹی وی چینل نے بلوچستان کے مسئلے کو اجاگر نہیں کیا سانحہ8اگست اس کے ذمہ داروں اور کمیشن رپورٹ پر کسی ٹی وی چینل نے بات نہیں کی ۔

انہوں نے کہاکہ جب میں مسخ شدہ لاشوں ،مسنگ پرسنز کی بات کرتا ہوں تو اس پر کچھ لوگ ناراض ہوتے ہیں اور ایک مرتبہ پھر جھالاون اور ساراوان میں جو ڈیتھ اسکواڈ او ایس ڈی تھے ان کو پوسٹنگ دیدی گئی ہے مگر جس تحریک کو ایوب ،یحییٰ ،ضیاء4 الحق اور مشرف کی مارش لاء4 ختم نہ کرسکے ان کو کوئی ختم نہیں کرسکتا ۔

انہوں نے کہاکہ شروع میں ،میں نے اس شرط پر سی پیک کی حمایت کی تھی کہ اس کا اختیار بلوچستان کو دیا جائیگا ترقی کی بنیاد بلوچستان میں ہوگی مگر ایسانہیں ہوا تو اب میں واضح انداز میں اعلان کرتا ہوں کہ ہمیں سی پیک نامنظور ہے میں موت سے ڈرنے والا نہیں ہماری بربادی کو ہماری ترقی کا نام دیکر ہمیں گمراہ نہیں کیا جاسکتا ۔

اس موقع پر پارٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے کارکنوں کو ایک ایک کرکے مارا جارہا ہے یہ ہمارے لیے ایک پیغام ہے ہمیں مارنے والے بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں جس کیلئے مختلف علاقوں میں ڈیتھ اسکواڈ بنادئیے گئے ہیں مگر جب تک بلوچ قوم کے قائدین کے جماعت اور اس کا پرچم باقی ہے بلوچ قوم کو نہ تو کوئی مٹا سکتا ہے اور نہ ہی ہماری تحریک کو روک سکتا ہے وقتی طور پر ہمیں نقصان پہنچانے والے ہمیں کبھی ختم نہیں کرسکتے ۔

ہم اپنی سرزمین کے مالک ہیں 70سال سے ہمارے وسائل کو لوٹا جارہا ہے طویل ساحل سمندر اور قیمتی معدنیات سے مالا سرزمین کے باسی دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہے ہمیں ہمارے سائل وسائل ،تعلیم اور انفراسٹریکچر سے بھی محروم رکھاگیا ہے ہمارے لوگوں کو شہید کیا جارہا ہے ترقی کے نام پر بلوچ قوم کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ ہمیں منظور نہیں جس طرح ہمارے وسائل سے محروم ہمارے لوگوں کو شہید کیا جارہا ہے۔

اس کے مقابلے میں بلوچ قوم کو بھرپور اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور پارٹی پرچم کو سنبھال کر آگے چلنا ہوگا پارٹی کے مرکزی سنیئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ نے کہا کہ میں ان تمام لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ جو تمام تر مشکلات اور جانی مالی قربانیوں کے موجود آج بھی پارٹیوں کے ساتھ کھڑے ہیں خراج تحسین کے مستحق ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس سرزمین کیلئے اپنے پیاروں کی جانوں کی قربانیاں دی ہے اس کے مقابلے میں ہماری قربانیاں کچھ نہیں ۔

ہمارے پارٹی قائد سردار عطاء4 اللہ مینگل نے اپنے جوان بیٹے کی قربانی دی تمام مشکلات کے باوجود آج بھی کارکن تحریک کے ساتھ ہیں ہم غیرت مند لوگ ہیں مگر سرچ آپریشن کے نام پر جس طرح ہماری چادر اور چاردیواری کے تقدس کا پامال کیا جارہا ہے چیک پوسٹوں پر ہماری تذلیل ہورہی ہے اس پر ہم خاموش نہیں رہ سکتے ہمارے لیے اقتدار کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہمارا خاندان85سال سے سیاست میں ہے مگر نہ تو آج تک کوئی عہدہ لیا نہ اسکی ہمیں ضرورت ہے ہم بلوچ پشتون قوموں کی تشخص عزت ننگ وناموس کی تحفظ کیلئے بی این پی کی پلیٹ فارم سے جدوجہد کررہے ہیں۔