|

وقتِ اشاعت :   November 26 – 2017

راولپنڈی: جڑواں شہروں کے سنگم فیض آباد فلائی اوور پرتحریک لبیک پاکستان کے دھرنے کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن ، مزاحمت کاروں نے انتظامیہ و پولیس کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔

ایف سی ،پولیس اور دھرنا کے شرکا کے درمیان خوفناک تصادم ،ربر کی گولیوں کے استعمال ،شیلنگ ، پتھروں ، ڈنڈوں وآہنی راڈوں کے آزادنہ ا ستعمال سے ایک پولیس اہلکار اور چھ مظاہرین سمیت 7افراد جاں بحق، تحریک لبیک پاکستان کے امیر خادم رضوی کے دو بیٹوں کے علاوہ سی پی او راولپنڈی ، ایس پی پوٹھوہار ، دو ڈی ایس پی اور دو ایس ایچ او اور میڈیا کے نمائندوں اور شہریوں سمیت 300سے زائد افراد زخمی ہو گئے جن میں سے بیشتر کی حالت نازک ہے ۔

مریڑ چوک گرڈ سٹیشن میں آگ لگنے سے شہرو چھاؤنی کے32کے قریب فیڈر بندہو جانے سے شہر کے80فیصد علاقوں میں مکمل بلیک آؤٹ رہا تمام نیوز چینل کی نشریات بند ہو جانے کے بعدراولپنڈی کے اکثر علاقوں میں انٹرنیٹ ، وٹس ایپ اور فیس بک سروس بھی معطل ہو گئی ۔

آپریشن کے ردعمل میں مشتعل افراد نے نجی ٹی وی چینل کی ڈی ایس این جی ، 3ایمبولینس گاڑیوں اورپولیس کی 5گاڑیوں کو نذر آتش کر دیاجبکہ پولیس نے ہنگامہ آرائی میں ملوث100سے زائد افراد کو موقع پر حراست میں لے لیا۔ زخمیوں میں زیادہ تر تعداد پولیس اور ایف سی کے جوانوں کی ہے جبکہ زخمی ہونے والوں میں متعدد کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے ۔

جاں بحق ہونے والوں میں صدر میں واقع مدرسے میں زیر تعلیم پنڈی کا رہائشی 19سالہ حافظ عدیل 43سالہ عرفان سکنہ تھانہ مغل تحصیل راولپنڈی 25سالہ محمد ضہیب ولد زاہد سکنہ ڈھوک کھبہ پچیس سالہ عبدالرحمان مقامی امن کمیٹی کا رکن 35سالہ جہانزیب نثار ولد نثار اور ایک نامعلوم شخص شامل ہیں جبکہ آئی ایٹ کے علاقے میں ایک پولیس اہلکار مظاہرین کے وحشیانہ تشدد سے جاں بحق ہوگیا تھا۔

نوں کی انتظامیہ سے ملنے والے اعدادوشمار کے مطابق بے نظیر بھٹو ہسپتال میں مجموعی طور پر 51زخمی لائے گئے جن میں ایف سی اور پولیس کے نو اہلکار شامل ہیں اسی طرح ہولی فیملی ہسپتال میں مجموعی طور پر چوبیس زخمیوں کو لایا گیا ہے جن میں سب انسپکٹر سمیت ایف سی اور پولیس کے آٹھ اہلکار اور سولہ مظاہرین شامل ہیں ۔

ادھر پمز ہسپتال میں مجموعی طور پر 158زخمیوں کو لایا گیا ہے جن میں پولیس کے 61اور ایف سی کے 47اہلکار شامل ہیں پولی کلینک ہسپتال میں مجموعی طور پر گیارہ زخمیوں کو لایا گیاہے جن میں ایف سی اور پولیس کے آٹھ اہلکار شامل ہیں ۔

ضلعی پولیس کے ترجمان کے مطابق مظاہرین نے قیدیوں اور حوالاتیوں کو لے جانے والی پولیس کی چار گاڑیوں کو بھی آگ لگانے کے بعد پٹرول پمپ پر کھڑی دس گاڑیوں اور ڈھوک کالا خان سروس روڈ پر دو موٹر سائیکل بھی نذر آتش کردیئے ادھر زخمی ہونے والوں میں سی پی او راولپنڈی اسرار احمد عباسی ڈی ایس پی سٹی فرحان اسلم ڈی ایس پی نیو ٹاؤن اور ایس ایچ او نیو ٹاؤن سمیت تیس سے زائد اہلکار زخمی ہوگئے ۔

گلشن دادن خان کے مقام پر سی پی او اسرار عباسی نے مظاہرین سے مذاکرات کی کوشش کی لیکن سی پی او اور پولیس کو دیکھتے ہی مظاہرین نے پتھراؤ کردیا جس سے درجنوں پولیس اہلکار زخمی ہوگئے ۔

ہفتہ کی صبح ہونے والے آپریشن کی خبر پھیلتے ہی شہر کے مختلف علاقوں نے دینی مدارس کے مہتم اورعلما کی قیادت میں نکالی جانے والی ریلیوں اور جلوسوں نے شہر کے تمام چوکوں اور چوراہوں پر احتجاج کرتے ہوئے سڑکیں بند کر دیں فیض آباد انٹر چینج پر پولیس اور ایف سی کے ہزاروں اہلکار دن بھر کی کوششوں کے باوجود علاقہ کلیئر نہیں کرا سکے جس کے بعد حکومت نے قیام امن کے لیے فوج کو طلب کرلیا ہے۔ 

وزارت داخلہ سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق اسلام آباد میں امن و امان کے قیام کے لیے فوج کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں ۔ نوٹیفکیشن کے تحت فوج کو غیر معینہ مدت کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے فوج کی طلبی آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت کی گئی ہے جس کے بعد فوری طور پر اسلام آباد میں امن وامان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے فوج تعینات ہوگی ،تاہم فوجی اہلکاروں کی نفری کا فیصلہ ٹرپل ون بریگیڈ کے کمانڈر کریں گے۔

ہفتہ کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اسلام آباد انتظامیہ نے ڈیڈ لائن ختم ہوتے ہی صبح 7بجے فیض آباد کے مقام پر دھرنے کے شرکاء کو منتشر کرنے کیلئے آپریشن شروع کیا جو دن بھر جاری رہا تاہم دھرنے کے شرکاء کو منتشر کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔

دریں اثناء انتظامیہ کی جانب سے دھرنا ختم کرانے کے لیے آپریشن کیخلاف مذہبی جماعت نے لاہور سمیت پنجاب کے مختلف مقامات پر احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا ۔

مظاہرین نے احتجاج کے دوران رکاوٹیں کھڑی کر کے اور ٹائر نذر آتش کر کے مختلف مقامات پر شاہراہوں کو بلاک کردیاجس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا،مشتعل مظاہرین نے مختلف مقامات پر حکومتی تنصیات کو بھی نقصان پہنچایا ۔

شیخوپورہ میں مشتعل مظاہرین نے رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف اور ان کے ساتھیوں کو شدید تشدد کر کے زخمی کر دیا جبکہ اس موقع پر جاوید لطیف کے گن مینوں نے ہوائی فائرنگ بھی کی ، احتجاج کے باعث میٹرو بس سروس بھی معطل رہی ، راستے بند ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کی بندش کے باعث مسافروں کو پیدل سفر طے کرنا پڑا جبکہ مختلف مقامات پر ایمبولینسز بھی ٹریفک جام میں پھنسی رہیں۔

شاہ عالم مارکیٹ، ہال روڈ اور مال روڈ سمیت دیگر مقامات پر تجارتی مراکز بند کر دئیے گئے ،پولیس نے مال روڈ پر احتجاج کیلئے آنے والے مذہبی جماعت کے درجنوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا ۔

تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز انتظامیہ کی جانب سے فیض آباد میں دھرنے کے شرکاء کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوتے ہی لاہور سمیت پنجاب کے مختلف مقامات پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا اور مشتعل مظاہرین نے رکاوٹیں کھڑی کر کے اور ٹائرنذر آتش کر کے شاہراہوں کو بند کر دیا ۔مختلف مقامات پر دیگر مذہبی جماعتوں کے کارکن بھی سڑکوں پر باہر نکل آئے ۔ 

لاہور میں مظاہرین مال روڈ پر احتجاج کے لئے پہنچے لیکن پہلے سے موجود پولیس نے مظاہرین کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جس پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہاتھا پائی ہو گئی ۔ پولیس نے درجنوں کارکنوں کو گرفتار کرکے مختلف تھانوں میں منتقل کردیا جنہیں بعد ازاں ایک ماہ کے لئے نظر بند کئے جانے کی اطلاعات ہیں ۔

مذہبی جماعت کے کارکنوں نے پنجاب اسمبلی کے سامنے مال روڈ پر دھرنا دیدیا جس سے مال روڈ اور ملحقہ شاہراہوں پر ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا ۔

لاہور ہائیکورٹ بار کے وکلاء نے بھی مال روڈ پر احتجاج کیا ۔ بتایاگیا ہے کہ مظاہرین کی جانب سے صوبائی دارالحکومت لاہور میں 20سے زاہد اہم مقامات پر احتجاج کیا گیا جس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم رہا اور لوگوں کواپنی منزل پر پہنچنے میں شدید مشکلات درپیش رہیں۔ 

مظاہرین نے شاہدرہ بتی چوک میں احتجاج کیا جس سے جی ٹی روڈ پر بدترین ٹریفک جام ہو گئی۔ مشتعل مظاہرین نے سیف سٹی کے پول اکھاڑ کر ان کے ذریعے راستے بند کر دئیے جبکہ اس موقع پر حکمران جماعت کے بینرز ، ہورڈنگز کواتار کر ان کی بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔