اسلام آباد : قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ کوئٹہ اور ملحقہ علاقوں میں گیس پریشر میں کمی کے مسئلے کے حل کیلئے جامع اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جس سے پریشر میں کمی کا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔
نئے گیس کنکشنوں پر عائد پابندی اٹھا لی گئی ہے‘ وزیر مملکت برائے پٹرولیم کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی قائم کردی گئی ہے،اجلاس میں توجہ مبذول نوٹس پر نسیمہ حفیظ پانیزئی اور عبدالقہار ودان نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ بلوچستان بالخصوص کوئٹہ میں گیس کے کم پریشر کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سردیوں میں کوئٹہ اور ملحقہ علاقوں میں درجہ حرارت منفی 10 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے جس کی وجہ سے بچوں اور بوڑھوں میں نمونیا اور سینے کے انفکشن کی شکایات عام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سردی کے موسم میں گیس کی کمی کی وجہ سے شہریوں کی مشکلات دوچند ہو جاتی ہیں۔
پارلیمانی سیکرٹری شہزادی عمرزادی ٹوانہ نے توجہ مبذول نوٹس کے جواب میں بتایا کہ سردیوں میں گیس کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے پریشر میں کمی آجاتی ہے۔ دیگر تکنیکی وجوہات بھی ہوتی ہیں۔
انہوں نے ایوان کو بتایا کہ کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں کم پریشر کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے کئی اقدامات کئے جارہے ہیں جن میں کوئٹہ سے مستونگ تک آٹھ انچ کی پائپ لائن کو 16 انچ کیا جارہا ہے۔ شکارپور سے جیکب آباد تک بھی پائپ لائن کی اپ گریڈیشن ہو رہی ہے جبکہ جیکب آباد اور جعفر آباد میں لوپ لائن بھی قائم کئے جارہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ شکارپور اور سبی میں طاقتور کمپریسر نصب کئے جارہے ہیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں گیس کے کم پریشر کا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔نکتہ اعتراض پر انجینئر عثمان بادینی نے کہا کہ کوئٹہ کے جنگلات گیس کی عدم دستیابی کی وجہ سے کٹ رہے ہیں۔
کوئٹہ کی قریبی آبادی کو ہم آج تک گیس نہیں دے سکتے۔ بلوچستان سے گیس نکلتی ہے اور یہاں کے بسنے والوں کو نہیں مل رہی۔ جس کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری پٹرولیم شہزادی عمرزادی ٹوانہ نے کہا کہ اس موسم سرما میں گزشتہ سال موسم سرما کی نسبت حالات بہتر ہیں۔
بلوچستان میں آبادی دوردراز ہے اس لئے وہ گیس پائپ لائن نہیں ڈالی جاسکتی وہاں ایل پی جی ایئرمکس پلانٹ لگائے جائیں گے۔ نئے کنکشن کے لئے اجازت نامہ دے دیا گیا ہے۔ وزیر کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی بن چکی ہے جہاں گیس نہیں ہے۔ وہاں سروے کرا کر سکیم دیں اس پر عمل ہو سکتا ہے۔
ایم کیو ایم کے شیخ صلاح الدین نے کہا کہ کراچی میں ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ ہمارے 200 کے قریب کارکن لاپتہ ہیں۔ اگر جرائم کئے ہیں تو سزائیں دیں ورنہ بلوچستان کی طرح رہائی دے کر قومی دھارے میں لایا جائے۔
کراچی میں کثیر المنزلہ عمارتیں بنوانا ملک ریاض کی وجہ سے بند ہوئی ہیں۔ غیر قانونی شادی ہال گرانے سے قبل ان کو نوٹس دیئے جانے چاہییں تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسے سلوک پر واک آؤٹ کرتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی رکن شائستہ پرویز ملک نے کہا ہے کہ نیب کے لندن جانیوالے افسران وہاں شیخ رشید کے لوگوں کیساتھ رہے ہیں۔ یہ خبر اور سوشل میڈیا پر ایسی اطلاعات کی تحقیقات کابینہ کمیٹی سے کرائی جائے یہ کیا ہو رہا ہے۔
شیخ رشید اس مقدمے میں نواز شریف کے خلاف پٹیشنر تھے‘ ان کے ساتھیوں کیساتھ نیب افسران کا وقت گزارنا شکوک پیدا کر رہا ہے۔ تحریک انصاف کی رکن مسرت زیب نے کہا کہ سوات میں بجلی نہیں ہے۔ پورے سوات ضلع میں 23 لاکھ آبادی ہے۔ 179 کنڈے یہاں پکڑے گئے۔ یہاں سوئی گیس نہیں ہے۔
جنگلات دھڑا دھڑ کاٹے جارہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں دیار کے درخت کاٹ کے بلین ٹری کے نام پر کیکر کے درخت لگائے جارہے ہیں۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے حلف پر کہا کہ عام لوگوں کے پاس خودکار ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں۔
ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ شہریوں کے پاس خودکار ہتھیار ہیں۔ اگر ان کو نہتا کریں گے تو ڈاکوؤں‘ چوروں کے پاس جدید خودکار ہتھیار ہیں۔ اس پابندی سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں لوگوں کو مسئلہ ہوگا۔ اس سے شریف شہریوں کو بدمعاشوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا۔ اس پر غور کریں۔
انہوں نے کہا کہ مالاکنڈ یونیورسٹی بن گئی ہے۔ یہاں گورنر اور وزیراعلیٰ کے درمیان وائس چانسلر کی تعیناتی کا مسئلہ ہے اس کو حل کیا جائے تاکہ یونیورسٹی فعال ہو۔
ایم کیو ایم کے رکن رشید گوڈیل نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت چند ہسپتال اور تعلیمی ادارے بنا کر ان کی تشہیر کرنے سے گریز کرے‘ یہ عوام کا بنیادی حق اور حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بنیادی سہولیات فراہم کریں‘ تشہیر کے اس پیسے سے یتیم بچیوں کی شادیاں اور مستحق لوگوں کو علاج معالجہ کی سہولت دی جائے۔
وہاں پھل دار درخت لگائے جائیں اس سے خوشحالی آئے گی۔جمعیت علماء اسلام (ف)کی رکن نعیمہ کشور نے کہا کہ عمرہ کو بائیو میٹرک کرنے سے خیبر پختونخوا یا دیگر صوبوں میں اگر ایک مرکز ہوگا تو کتنے مسائل ہوں گے۔ یہ بائیو میٹرک کا کام بھی فرم کو دیا گیا ہے وہ انڈیا کی ہے۔
یہ کام ایئرپورٹ پر کرایا جائے یا نادرا کے حوالے کیا جائے۔ ایوان میں واک آؤٹ مذاق بن گیا ہے۔ جن لوگوں کے لئے واک آؤٹ کیا جارہا ہے وہ ایوان میں ہوتے ہیں۔ فاٹا پر سیاست سے گریز کیا جائے۔ فاٹا کے ممبران اگر کہتے ہیں کہ بیٹھ کر ہمیں مسئلہ حل کرنا چاہیے تو ہمیں اس پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ ہم کورم اور واک آؤٹ پر لگے ہوئے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے رکن رانا حیات نے کہا ہے کہ گنے کے کاشتکاروں سے زیادتی ہو رہی ہے۔ میں نے تجویز دی تھی کہ چاروں وزراء اعلیٰ کو بلایا جائے۔ کاشتکاروں کو طے شدہ رقم نہیں دی جارہی‘ انہیں 180 روپے من کی بجائے 140 روپے فی من دیئے جارہے ہیں،اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی سپیکر جاوید مرتضیٰ عباسی نے (آج) جمعرات کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا۔