|

وقتِ اشاعت :   March 4 – 2018

کوئٹہ: بلوچستان میں سینیٹ انتخاب میں ن لیگ سے منحرف حکمران اتحاد کے حمایتی آزاد امیدواروں نے میدان مارلیا۔ گیارہ نشستوں میں سے چھ پر کامیابی حاصل کرلی۔ 

اپوزیشن کی پشتونخواملی عوامی اور نیشنل پارٹی کے اتحاد نے چار نشستیں جیتیں جبکہ جمعیت علمائے اسلام کا ایک امیدوار کامیاب ہوا۔21نشستیں رکھنے والی ن لیگ کوئی بھی امیدوار کامیاب نہ کراسکی۔ سینیٹ انتخابات کیلئے کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کی عمارت کو پولنگ اسٹیشن قرار دیا گیا۔ پہلا ووٹ ڈھائی گھنٹے کی تاخیر سے کاسٹ ہوا۔پولنگ کا عمل صبح نو بجے سے چار بجے تک جاری رہا۔ 

گیارہ نشستوں پر23امیدواروں میں مقابلہ تھا۔ سات جنرل نشستوں پر15امیدوار، دو ٹیکنوکریٹ نشستوں پر3، دو خواتین نشستوں پر5امیدواروں میں مقابلہ تھا۔ ن لیگ کے منحرف ارکان ، ق لیگ ، مجلس وحدت مسلمین اور ایک آزاد رکن پر مشتمل حکمران اتحاد نے جنرل پر سات امیدوار ، ٹیکنوکریٹ پر ایک اور خواتین نشست پر دو امیدوار کھڑے کئے تھے ۔ 

پشتونخوامیپ نے جنرل پر دو امیدوار آزاد حیثیت سے ، خواتین کی نشست پر ایک ، نیشنل پارٹی نے جنرل اور ٹیکنوکریٹ کی نشست پر ایک ایک امیدوار کھڑے کئے تھے۔ جے یو آئی کے تینوں درجنوں میں تین امیدوار، بی این پی مینگل کا ایک اور اے این پی کا ایک امیدوار جنرل نشست پر میدان میں تھا۔

غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق ن لیگ کے منحرف ارکان ، ق لیگ ، مجلس وحدت مسلمین اور ایک آزاد رکن پر مشتمل حکمران اتحاد نے جنرل کی سات نشستوں میں سے چار نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کامیاب ہونیوالوں میں حکمران اتحاد کے حمایتی آزاد امیدوار محمد صادق سنجرانی ، احمد خان، انوار الحق کاکڑاور کہدہ بابر شامل ہیں۔

اپوزیشن اتحاد کے پشتونخواملی عوامی پارٹی کے حمایتی آزاد امیدوار سردار شفیق ترین اور نیشنل پارٹی کے محمد اکرم اور جمعیت علمائے اسلام کے مولوی فیض محمد نے بھی جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی۔ اس سے قبل ووٹوں کی گنتی کے دوران پشتونخوامیپ کے حمایت یافتہ یوسف خان کاکڑ کو کامیاب قرار دیا گیا تھا لیکن بعد ازاں دوبارہ گنتی میں ایک ووٹ مسترد ہونے کی وجہ سے یوسف خان کی بجائے انہی کی جماعت کے حمایتی دوسرے امیدوار سردار شفیق ترین کامیاب قرار پائے۔

مولوی فیض محمد کے پوائنٹس کی تعداد702تھی جبکہ یوسف خان کے پوائنٹس 600تھے۔دیگر ناکام امیدواروں میں جنرل نشستوں پر ن لیگ کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار امیر افضل مندوخیل نے صرف پانچ ووٹ لئے ۔

کامیاب ہونیوالے سینیٹرز میں احمد خان پاکستان کے بڑے تعمیراتی کمپنی کے مالک ، انوار الحق کاکڑ وزیراعلیٰ بلوچستان کے مشیر برائے اطلاعات، کہدہ بابر وزیراعلیٰ کے مشیر برائے گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی لانچ کے کاروبار سے منسلک سرمایہ دار شخصیت ہیں۔ محمد صادق سنجرانی بھی معدنیات کے کاروبار سے منسلک سرمایہ دار شخصیت ہیں۔ سردار شفیق ترین کوئلہ کانوں کے مالک بتائے جاتے ہیں۔ نیشنل پارٹی کے کہدہ محمد اکرم بلوچ کا تعلق بلوچستان کے کیچ سے ہیں اور پارٹی کے دیرینہ کارکن رہے ہیں۔ 


جبکہ مولوی فیض محمد جے یو آئی بلوچستان کے موجودہ امیر اور سابق صوبائی وزیر ہیں۔ ٹیکنوکریٹ اور علماء کی دو نشستوں پر اپوزیشن اتحاد کے حمایتی نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو 28 ووٹ لیکر اور حکمران اتحاد کے آزاد امیدوار نصیب اللہ بازئی 24ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ 

طاہر بزنجو نیشنل پارٹی کے مرکزی جنرل سیکریٹری ، ادیب اور لکھاری ہیں۔ اس سے پہلے بھی سینیٹر رہ چکے ہیں۔ ناکام امیدواروں میں جمعیت علمائے اسلام کے کامران مرتضیٰ کو 17 ووٹ ملے۔ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر پشتونخواملی عوامی پارٹی نے اپنا امیدوار ڈاکٹر مناف ترین نیشنل پارٹی کے طاہر بزنجو کے حق میں دستبردار کرادیا تھا۔ 

خواتین کی نشستوں پر اپوزیشن اتحاد کی آزاد امیدوار عابدہ محمد عظیم دوتانی 22ووٹ جبکہ حکمران اتحاد کی آزاد امیدوار ثناء جمالی 19ووٹ لیکر کامیاب ہوگئے۔ عابدہ محمد عظیم پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سابق صوبائی صدر عبدالرزاق دوتانی کی بہو جبکہ ثناء جمالی سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جان جمالی کی بیٹی ہیں۔ 

ناکام امیدواروں میں حکمران اتحاد کی شمع پروین مگسی کو 14ووٹ جبکہ ن لیگ ثناء اللہ زہری گروپ کی حمایتی آزاد امیدوار ثمینہ ممتاز زہری 9ووٹ ملے۔ شمع پروین مگسی سابق گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی کی اہلیہ ہیں۔ ان کا تعلق مضبوط سیاسی گھرانے سے ہے اور ان کی ناکامی کو اپ سیٹ کہا جاسکتا ہے۔

سینٹ انتخابات کے بعد سینٹ میں پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے سینیٹرز کی تعداد پانچ پانچ ہوگئی ہے۔ دریں اثناء سینیٹ کی 52 نشستوں پر انتخابات ، پنجاب اور اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوارں ،سندھ میں پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا، جبکہ فاٹا میں فاٹا اتحادکے چار آزادامیدوار کامیاب ہو ئے ہیں۔

،ایم کیو ایم کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا،(ن) لیگ اپنے حمایت یافتہ سینیٹرز کے ساتھ33نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے جبکہ پیپلز پارٹی 20سینیٹرز کے ساتھ دوسرے نمبر پرآگئی ہے،17آزاد امیدوار ہیں اس طرح نئے چئیرمین سینیٹ کے انتخاب کیلئے آزاد امیدواروں کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔

تفصیلات کے مطابق ہفتہ کو ہونیوالے انتخابات میں سینیٹ کی 52 نشستوں پر 113 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ قومی اسمبلی اور ملک کی چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صبح 9 بجے پولنگ شروع ہوئی جو شام 4 بجے تک بلا تاخیر جاری رہی۔ کامیاب امیدوار 6 سال کے لیے ملک کے ایوان بالا سینیٹ کے رکن منتخب ہوگئے۔

غیرسرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 16 امیدوار، پیپلز پارٹی کے 12 ، پی ٹی آئی کے 6، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 2، نیشنل پارٹی کے دو، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، فنکشنل لیگ اور پشتونخوا میپ کا ایک ایک جبکہ 10 آزاد امیدوار کامیاب ہوگئے ۔

اسحاق ڈار اور مشاہد حسین، آصف کرمانی، مصدق ملک، رانا مقبول، ہارون اختر، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ہمشیرہ سعدیہ عباسی، رضا ربانی، مولا بخش چانڈیو، مرتضیٰ وہاب،نواز کھوکھر اور محمد علی جاموٹ،پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری محمد سرور بھی کامیاب ہو گئے۔ 

مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نے پہلی مرتبہ سینیٹ انتخابات میں آزاد امیدواروں کی حیثیت سے حصہ لیا۔پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 11 ارکان نے کامیابی حاصل کی جبکہ ایک نشست پاکستان تحریک انصاف کے نام رہی۔سندھ اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 11 اور مسلم لیگ فنکشنل نے سینیٹ کی ایک نشست حاصل کی۔

خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے 3، ن لیگ کے حمایت یافتہ 2 جبکہ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے ایک ایک امیدوار کامیاب ہوئے۔بلوچستان اسمبلی سے 8 آزاد امیدوار، نیشنل پارٹی کے دو اور جمعیت علمائے اسلام کا ایک امیدوار کامیاب ہوا۔

اسلام آباد کی سینیٹ کی دونوں نشستیں ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدواروں اور فاٹا کی چاروں نشستیں آزاد امیدواروں کے نام رہیں۔اسلام آباد کی دونوں نشستوں پر (ن) لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار کامیاب قرار پائے۔اسلام آباد سے جنرل نشست پر اسد جونیجو 214 ووٹ لے کرسینیٹر منتخب ہوئے جب کہ ان کے مد مقابل پیپلز پارٹی کے عمران اشرف کو 48 ووٹ ملے۔

مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدوار مشاہد حسین سید بھی اسلام آباد سے ٹیکنو کریٹ کی نشست پر سینیٹر منتخب ہوگئے۔ مشاہد حسین 223 ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوئے اور ان کے مد مقابل پیپلزپارٹی کے راجہ شکیل عباسی کو 64 ووٹ ملے۔ قومی اسمبلی میں سینیٹ کی ٹیکنوکریٹ کی نشست پر 300 ووٹ کاسٹ کیے گئے جن میں سے 14ووٹ مسترد کردیئے گئے۔ فاٹا کی 4 نشستوں پر 24 اور اسلام آباد کی 2 نشستوں پر 5 امیدوار مد مقابل تھے۔

سینٹ انتخابات میں فاٹا سے 6رکنی اتحاد کے نامزد 4 آزاد امیدوارسینیٹر منتخب ہوگئے ہیں ،فاٹا سے کامیاب ہونے والوں میں ہلال الرحمن ، ہدایت اللہ، شمیم افریدی اور مرزا محمد افریدی شامل ہیں ،وزیر مملکت برائے سیفران غالب خان ،شہاب الدین اور تحریک انصاف کے رکن قیصر جمال نے سینٹ الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا، فاٹا سے کامیاب ہونے والے چاروں سینیٹرز نے 7/7ووٹ حاصل کئے ہیں ۔

مقررہ وقت کے اختتام پر صرف 8اراکین کی جانب سے ڈالے گئے 30ووٹ گنتی کرائے گئے ۔پنجاب کی 12 نشستوں پر 20 امیدوارمیدان میں تھے ۔ جنرل نشستوں پر 10، خواتین کی نشستوں پر 3، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 5 جبکہ اقلیتوں کی نشست پر 2 امیدوار میدان میں تھے۔

سینٹ میں پنجاب کی 12نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ امیدواروں نے میدان مار لیا ہے جبکہ 1نشست پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری سرور اور پی ایم ایل (ن) کے امیدوار محمود الحسن کے درمیان سخت مقابلے کے بعد پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری محمد سرور کامیاب قرار پا گئے ہیں۔

سینٹ کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کامیاب ہونے والے امیدواروں میں اسحاق ڈار، نزہت صادق، آصف کرمانی، مصدق ملک، سعدیہ عباسی، رانا مقبول، ہارون اختر، حافظ عبدالکریم، کامران مائیکل، زبیر گل، شاہین خالد بٹ شامل ہیں۔

سینٹ میں پنجاب کی 12 نشستوں جن میں سات جنرل نشستیں دو ٹیکنو کریٹ، دو خواتین اور ایک مینارٹی کی نشست شامل تھی پر انتخابات ہوئے الیکشن کمیشن پنجاب کی جانب سے جاری کردہ غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق سینٹ کی سات جنرل نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے آصف کرمانی، مصدق ملک، رانا مقبول، ہارون اختر، زبیر گل، شاہین خالد بٹ، ٹیکنو کریٹس کی دو نشستوں پر اسحاق ڈار اور حافظ عبدالکریم، خواتین کی دو نشستوں پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ہمشیرہ سعدیہ عباسی اور نزہت صادق جبکہ اقلیتی ایک نشست پر کامران مائیکل کامیاب قرار پائے ہیں۔ 


پنجاب کی 12 نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے 20 امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا، ووٹنگ کا عمل صبح نو بجے سے شروع ہو کر شام 4 بجے تک جاری رہا۔

سینٹ کی خالی نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے انعقاد کے موقعہ پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے، تمام دن مختلف امیدوار اور ان کے حمایتی ارکان اسمبلی اپنے اپنے امیدواروں کی حمایت میں ووٹ مانگتے رہے، اس طرح مجموعی طور پر سینٹ کی 12 نشستوں پر انتخاب پرامن طریقے سے مکمل ہو گیا۔ 

غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج منظر عام پر آتے ہی پنجاب اسمبلی میں موجود (ن) لیگی کارکنوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، پنجاب اسمبلی کی فضا شیر آیا، شیر آیا، میاں دے نعرے وجن گے‘‘ کے نعروں سے گونجتی رہی، اس موقعہ پر لیگی کارکنوں نے خوشی میں بھنگڑے بھی ڈالے اور مٹھائی بھی تقسیم کی۔سندھ کی 12 نشستوں پر مجموعی طور پر 33 امیدواروں نے الیکشن میں لیا۔ 

جنرل نشستوں پر 18، ٹیکنوکریٹ نشستوں پر 6، خواتین کی نشستوں پر 6 جبکہ اقلیتوں کی نشست پر 3 امیدواروں میں مقابلہ تھا۔سندھ اسمبلی کے 161 سے نے ووٹ کاسٹ کیے جن میں سے پیپلزپارٹی کے85 ارکان اور مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ 7 ارکان نے بھی ووٹ ڈالے۔ 

پیپلزپارٹی نے سینیٹ انتخابات میں سندھ سے میدان مارلیا ہے ، سینیٹ کی 12میں سے 10نشستوں پر پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کرلی ہے ،جبکہ ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ فنکشنل ایک ایک نشست لے سکی ہیں۔

،پیپلزپارٹی کے مولا بخش چانڈیو ،میاں رضا ربانی ،سید محمد علی شاہ جاموٹ ،مرتضیٰ وہاب،مصطفی نواز کھوکھر ،امام الدین شوقین نے جنرل نشست پر جبکہ ڈاکٹر سکندر میندھرو اور رخسانہ زبیری نے ٹیکنو کریٹ کی نشست پر جبکہ پیپلزپارٹی کے انور لعل ڈین نے اقلیتی نشست پر 100ووٹ لیکر کامیابی حاصل جبکہ ایم کیو ایم کے سنجے پروانی صرف 43ووٹ لے سکے ۔

خواتین کی مخصوص نشستوں پر پیپلزپارٹی کی قراۃ العین مری اور کرشنا کوہلی نے کامیابی حاصل کرلی ہے ۔جبکہ مسلم لیگ فنکشنل کے مظفر حسین شاہ نے بھی جنرل نشست پر کامیابی حاصل کرلی ہے ۔مسلم لیگ ن ، پی ایس پی اور ایم کیو ایم نے مظفر حسین شاہ کی حمایت کی تھی۔ جبکہ صوبے کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ایم کیو ایم پاکستان اندروانی اختلافات کی وجہ سے صرف ایک نشست لے سکی ہے ۔

ایم کیو ایم پاکستان کے فروغ نسیم واحد امیدوار ہیں جو سینیٹر منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔12سینیٹرز کے انتخاب کے لئے166میں سے 162ارکان سندھ اسمبلی نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ۔ صوبے سے سینیٹ کے لئے سات عام نشستوں، دو خواتین، دو ٹیکنو کریٹس اور ایک اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کے لئے امیدواران کے درمیان مقابلہ ہوا ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے 94 ارکان تھے جبکہ گروپ بندی کا شکار ایم کیو ایم پاکستان کے اسمبلی ریکارڈ کے مطابق 50 ارکان تھے لیکن ان میں سے 8 چونکہ پی ایس پی میں شامل ہوچکے تھے اور پی ایس پی نے اپنے امیدوار بھی میدان میں اتارے تھے اور ساتھ میں فنکشنل لیگ کی حمایت کا اعلان بھی کیا تھا ،جبکہ بقیہ مانداس مقابلے کے لئے صوبے کی مختلف جماعتوں کے 33 امیدوار آمنے سامنے تھے ۔ جن میں سے 7جنرل نشستوں کیلئے 18 امیدوار وں کے درمیان مقابلہ تھا۔

پیپلزپارٹی نے 7میں سے 5 نشستیں جیت لیں جبکہ خواتین کی دو مخصوص نشستوں سمیت ٹیکنو کریٹ کی دونوں نشستوں پر پی پی امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔اس کے علاوہ ہفتہ کے روزصوبائی الیکشن کمشنرنے پولنگ کاجائزہ لیا،سینیٹ الیکشن کے موقع پرسندھ اسمبلی کے اطراف میں پولیس اوررینجرزکی بھاری نفری تعینات تھی جبکہ سینیٹ الیکشن میں پولنگ کی کوریج کے لیے میڈیاپرپابندی عائد کردی گئی تھی ۔

ارکان اسمبلی کوموبائل فون پولنگ بوتھ لے جانے سے روک دیاگیا تھا ۔سندھ اسمبلی سے سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے سندھ اسمبلی آنے والے دونوں راستے کردئے گئے ،جبکہ آرٹس کونسل کی جانب سے آنے والے راستے کھلے رکھے گئے تھے۔جبکہ فوارہ چوک سے پریس کلب کو جانے والا راستہ بھی سیکیورٹی کے باعث بند رکھا گیا تھا ۔سندھ اسمبلی کے اطراف 10سے زائد تھانوں کی پولیس تعینات تھی۔ 

ادھر خیبر پختونخوا سے سینیٹ کی 11 نشستوں کے لیے 27 امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوا، 7 جنرل نشستوں میں سے پی ٹی آئی کے تین امیدوار فیصل جاوید، فدا محمد اور ایوب آفریدی، ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار پیر صابر شاہ، جے یو آئی ف کے طلحہ محمود، جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان اور پیپلز پارٹی کے بہرہ مند تنگی کامیاب ہوگئے۔ٹیکنوکریٹ کی 2 نشستوں پر پی ٹی آئی کے اعظم سواتی اور ن لیگ کے حمایت یافتہ دلاور خان کامیاب ہوگئے۔ 

خواتین کی نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کی مہرتاج روغانی اور پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد کامیاب ہوگئیں۔خیبر پختون خوا میں جے یو آئی (س) کے مرکزی امیر مولانا سمیع الحق ٹیکنو کریٹ کی نشست پر ہار گئے۔

انہیں صرف 4 ووٹ ملے۔اس طرح خبرپختونخوا اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف نے 5 نشستیں جیت لیں، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو 2، 2 سیٹیں ملیں، جے یو آئی اور جماعت اسلامی کا ایک ایک سینیٹر منتخب ہوگیا، ، ن لیگ کے پیر صابر شاہ بھی جنرل نشست پر سینیٹر منتخب ہوگئے، خیبرپختونخوا اسمبلی میں اگلی باری پھر زرداری کے نعرے بھی لگے۔

بلوچستان سے دہشت و خوف کا صفایا کردیا، صوبہ تعمیر وترقی کے نئے دور میں داخل ہورہا ہے، کمانڈر سدرن کمانڈ
گوادر ( بیورورپورٹ ) گوادر کی ترقی اٹل ہے۔ پا ک فوج نے دہشت گردوں کاصفایا کر دیا ہے۔ ملک کے سر حدوں کی حفاظت کا فریضہ ادا کر نے کے ساتھ ساتھ سماجی تر قی میں بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ گوادر کے عوام کا دیر ینہ مطالبہ پور ا کر نے جارہے ہیں۔ ڈیسلینشین پلانٹ کی تعمیر کے بعد پینے کے پانی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔صحافیوں کا مسائل اجاگر کر نے میں کردار اہم ہوتا ہے ۔

ان خیا لا ت کااظہار کمانڈر سدر ن کمانڈ لیفٹنٹ جنرل عاصم باجوہ نے 440بر گیڈ کیمپ میں گوادر پر یس کلب کے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے بلوچستان اورآج کے بلوچستان میں زمین و آسمان کا فر ق ہے جو عناصر یہاں کے امن اور تر قی کی راہ میں نام نہاد طو ر پر رکاوٹ بنے ہوئے تھے وہ اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں جن لوگوں کو ورغلا کر فراری بنا یا گیا تھا وہ اب بتدریج قومی دھارے میں شامل ہور ہیں اور جو مٹی بھر دہشت گرد بچے ہوئے ہیں ۔

راہ فرار ڈھو نڈ رہے ہیں پا ک فوج نے بلوچستان میں دہشت اور خوف کا صفایا کر دیا ہے بلوچستان تعمیر اور ترقی کے نئے دور میں داخل ہورہا ہے گوادر کی ترقی اٹل ہے اور جد ید گوادر جلد اپنا عکس دکھا ئے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ گوادر میں ماہی گیروں کو غیر قانونی ٹرالرنگ سے اپنے روزگار کے حوالے سے خدشات در پیش ہیں ماہی گیروں کے روزگار کو ہر قسم کی رکاوٹ سے پاک کر نے کی کوشش کی جائے گی اور ماہی گیروں کو اپنے ڈسلوکیٹ ہونے کا جو خدشہ ہے اس کو بھی زائل کرنے کی کوشش کی جائیگی۔ 

انہوں نے کہا کہ پا ک فوج نہ صرف ملک کے سرحدوں کی حفاظت کا اپنا پیشہ ورانہ فرض ادا کررہی ہے بلکہ سماجی شعبوں میں بھی تبد یلی ہمارا عزم ہے گوادر کے عوام کا دیر ینہ مطالبہ تھا کہ ان کے پینے کی پانی کی فراہمی کا مسئلہ حل کیا جائے ۔ 

الحمداللہ اس ضمن میں ہماری کوششیں بار آور ثابت ہوئی ہیں گوادر میں دو ملین کی حامل کا ڈیسلینیشن پلانٹ تعمیر ہونے جارہا ہے جس سے پانی بحران پر قابو پا یا جاسکتا ہے یہ منصوبہ انشاء اللہ جو لائی تک مکمل ہوگا جب تک پانی کا بحران موجود ہے اس کو متبادل ذرائع سے نمنٹنے کی کوشش کی جائے گی جس سے بحری جہازوں اور دیگر ذرائع سے استفادہ حاصل کرینگے۔

انہوں کہا کہ میڈ یا کی بہت کلیدی اہمیت ہے جس سے عوامی مسائل کو اجاگر ہو تے ہیں صحافی اپنے قلم کی حرمت کو برقرار رکھتے ہوئے من الحیث معاشرہ کی رہنمائی کر یں مثبت اور تعمیر ی صحافت سے تبد یلی کو بھی مہمیز ملے گی ۔ا نہوں نے یقین دلایاکہ گوادر پر یس کلب کی ہر ممکن معاونت بھی کر ینگے ۔ اس موقع پر 440بر گیڈ کے کمانڈر بر گیڈےئر کما ل اصفر اور دیگر حکام بھی موجود تھے۔