|

وقتِ اشاعت :   July 6 – 2018

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما نوابزادہ میر حاجی لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ کے دور حکومت میں جاری ہونے والے فنڈز سے انتخابی مہم چلانے والے ٹھیکیداروں کا سیاسی ایجنڈا مسائل کا حل نہیں وسائل کی لوٹ مار ہے۔ 

بلوچستان میں سیٹلرز کو انکے اپنے آستین کے سانپوں نے ذات کی سیاست کیلئے بلوچ اور پشتون سے کاٹ کر رکھاہے۔ بلوچ نواب اور سرداروں نے 44 سال قبل سیٹلرز کو بلوچستانی قرار دیا تھا ۔

گزشتہ پانچ سالوں میں 40 ہزار آسامیوں اور 100 ارب روپے ضائع کرنے والے عوام کا مینڈیٹ خریدنے کیلئے گلی کوچوں میں نکلے ہیں۔ کوئٹہ سے ووٹ لیکر ڈیورڈ لائن کی سیاست کرنے والوں نے پانچ سالہ دور اقتدار میں ایک بھی وو ٹر سے ملاقات تک گوارا نہیں کی ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز تیل گودام میں منعقدہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سابق صوبائی وزیر اسماعیل گجر بھی موجود تھے ۔نوابزادہ لشکری رئیسانی کا تیل گودام پہنچنے پر علاقہ مکینوں نے پرتپاک استقبال کرتے ہوئے ان پر گل پاشی کی۔

نوابزادہ لشکری خان رئیسانی کا کہنا تھا کہ میرا شکوہ ہے کہ ہم سیٹلرز کو گلے سے لگارہے ہیں مگر آستین کے سانپ جنہوں نے کئی دہائیوں سے ان کو ہم سے دور رکھا ہے آج ایک مرتبہ پھر ان کو دور رکھنے کی سازش کررہے ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں نسلوں سے آباد سیٹلرز کی اکثریت تعلیم یافتہ لوگوں کی ہے مگر افسوس کے انہوں نے کبھی بلوچستان کی 47سالہ تاریخ پر کھبی نظر نہیں دوڑائی ہے جس کی وجہ سے وہ آج بھی خودکو ہم سے بیگانہ سمجھتے ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ 1974ء میں صوبے میں پہلی مرتبہ قائم ہونے والی آئینی حکومت جس میں بلوچ سردار اور نواب شامل تھے اس حکومت نے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے یہاں آباد سیٹلرز کو لوکل قرار دیا تھا جس کا تاریخ میں کہیں ذکر نہیں ہے ۔ اور اس کا ذکرخود کو سیٹلرز کا لیڈر قرار دینے والے ضرور کرتے ہیں کہ پنجابیوں کو 74 19ء میں بلوچستان سے نکالا گیا ہے ۔ 

جس پر میں واضح کرتا ہو ں کہ 1974ء میں مصطفی کھر نے بلوچستان میں تعینات پنجاب سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکاروں اور افسران کو اضافی مراعات کی پیش کش کرکے اپنے یہاں بلایا جس سے بلوچستان میں ایک انتظامی بحران پیدا ہوا۔ 

پنجاب سے تعلق رکھنے والے پولیس افسران کو واپس جانے سے روکنے کیلئے اس وقت کے وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ خان مینگل نے پولیس لائن کے سامنے کھڑے ہوکر ان سے نہ جانے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ یہ وطن آپ کا ہے یہاں افراتفری میں اضافہ نہ کریں جس پر آگے سے جواب آیا کے کھرصاحب نے واپس آنے کو کہا ہے اور جو افسران مصطفی کھر کے کہنے پر وہاں گئے تھے چند ہی دنوں بعد واپس بلوچستان آنے شروع ہوئے ۔ 

نوابزادہ لشکری خان رئیسانی کا مزید کہنا تھا کہ کسی بلوچ نے ریاست کو ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کرنے سے نہیں روکا ہے ۔نیشنل عوامی پارٹی نے 1974 ء میں ہونے والے سینٹ انتخابات میں مستونگ کے رہائشی زمرد حسین جو سیٹلر تھا اس کو سینیٹر منتخب کرایا ۔

دوسرا سینیٹر ہاشم خان غلزئی کو منتخب کرایا گیا جو ایک پشتون تھے اسی دور حکومت میں تیسرے سینیٹر منتخب ہونے والے سید ناصر علی شاہ ہزارہ کے والد تھے جو ہمارے اکابرین کی برادراقوام کو یکجا کرنے اورنسلی تعصب ،فرقہ واریت سے نفرت کو ظاہر کرتی ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ جتنی تکلیف سے یہاں آباد سیٹلزر گزرہے ہیں اس سے کہیں گنا زیادہ ہم کو بھی اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا تے ہوئے ہوئی ہے اگر ہماری تکلیف کا درد ایک جیسا ہے تو پھر ہم اس سرزمین سے نکلنے والے وسائل کو لوٹنے والوں کا راستہ روک کر اس کا مالک کیوں نہیں بن سکتے ۔ان کا کہنا تھا کہ میرا ایمان ہے جس دن ہم نے مشترکہ جدوجہد کو ترجیح دی اس دن ہم ترقی کے سفر میں باقی صوبوں سے بہت آگے نکل جائیں گے ۔

نوابزدہ لشکری خان رئیسانی کا مزید کہنا تھا کہ پارٹی نے اپنے منشور میں اکابرین کی جدوجہد کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ اگر عوام نے ہم پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسمبلی کے ایوان تک پہنچایا تو ہمارا وعدہ ہے کہ ہمارا پہلا کام سیٹلزر کو لوکل قرار دینے کیلئے قانون سازی کرنا ہوگا تاکہ آئند ہ کوئی بھی اپنی ذات کیلئے سیاست نہ کرسکے ۔

نوابزادہ لشکری خان رئیسانی کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سالہ دور اقتدار میں شریک افراد نے صوبے کی 35 سے 40 ہزار ملازمتوں کو ضائع کیا جن کی نااہلی سے صوبے میں 100 ارب روپے ضائع ہوئے وہی لوگ آج سابق وزیراعلیٰ کے دور میں جاری ہونے والے فنڈز سے اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں۔

خود کو سیٹلرز کا لیڈر کہنے والوں میں سے ایک کی گائے کا رنگ سفید دوسرے کی گائے کا رنگ سرخ ہے جس کی گائے کا رنگ سفید ہے گزشتہ بیس سالوں میں یہ شخص کسی کے غم اور خوشی میں شریک نہیں ہوا ہے ۔ اور دوسرا جس نے سینٹ کے انتخابات میں خود کو فروخت کیا اس کی گائے کا رنگ سرخ ہے ۔

اب عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایک ایم پی اے کی نشست کی خاطراپنا ووٹ دینگے یا اس جماعت کا انتخاب کرینگے جس نے عوام کے مینڈیٹ کا سوداکر کے یہاں کے مسائل حل کرنے کی بجائے ڈیورڈ لائن کی سیاست کی ہے یا صوبے اور اپنی آئندہ نسلوں کے مفاد میں اس جماعت کا انتخاب کرینگے جو ساحل وسائل پر اختیار اور آپ کی شناخت کیلئے جدوجہد کررہی ہے ۔

ا گر آپ نے 25 تاریخ کو ووٹ دیتے وقت صیح نمائندہ کا انتخا ب کیا تو اگلے ہی دن ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے سیٹلر بھی اس سرزمین کے وارث بن جائیں گے ۔ اور عوام کی طاقت سے ہم آستین کے سانپوں ، تفرقہ، جھوٹ، کرپشن ،ٹھیکیداری کی سیاست کرنے والوں کو شکست دیتے ہوئے مقصد،محبت اورحقیقی مساوات کی سیاست کوآگے بڑھائیں گے ۔