|

وقتِ اشاعت :   August 18 – 2018

حب: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن(پجار)کے مرکزی کابینہ کا اجلاس مرکزی سینئر وائس چیئرمین کامریڈ عمران بلوچ کی زیر صدارت کوئیٹہ میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں مرکزی سکریٹری جنرل حمید بلوچ جونیئر وائس چیئرمین آغاداود شاہ سنیئر جوائنٹ سکریٹری غلام حسین بلوچ بلوچستان وحدت کے صدر علاولدین مری بھی موجود تھے ۔

اجلاس میں تنظیمی و سیاسی معاملات،علاقائی ملکی و بین الاقوامی سیاسی صورتحال،تعلیمی مسائل، کونسل سیشن، آئندہ کا لائحہ عمل سمیت دیگر امور کے ایجنڈے زیر بحث رہے اجلاس نے مرکزی کونسل سیشن جو 27،28،29 اگست کو منعقد ہونا تھا کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر کونسل سیشن کو ملتوی کردیا اور فیصلہ کیا گیاکہ 20 دن کے اندر اندر مرکزی کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے مرکزی کمیٹی سے مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کی سفارش کرکے آرگنائزنگ کمیٹی تشکیل دی جائیگی ۔

اجلاس میں بولان میڈیکل کالج کے انتظامیہ کی طلبا کے ساتھ امتیازی و سوتیلہ رویہ طلبا کو ناپسندی کی بنیاد پر فیل کرنے کو ان کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہیکہ طلبا کے جاری تادم بھوک ہڑتال پر جلد از جلد توجہ دیکر ان کے جائز مطالبات پر عمل کیا جائے ۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی سینئر وائس چیئرمین کامریڈ عمران بلوچ نے کہاکہ بی ایس او(پجار)نے بحیثیت ایک جمہوری،سیاسی طلبا تنظیم کی حیثیت سے بلوچ قومی تحریک میں ایک فعال جز کی حیثیت سے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے ۔

تشدد پسندانہ رویہ و جدوجہد کی کی بیغ کنی کرکے مثبت سیاسی و جمہوری روش کو پروان چڑایا ہے ہم ترقی پسندانہ قوم پرستی پر یقین رکتھے ہیں اور انسان دوستی کے ترقی پسندانہ فکر کے حامی ہے لیکن آج جمہوری جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لئے مختلف قوتیں برسرپیکار مختلف ہتکھنڈے استعمال کررہے ہیں ۔

بلوچستان جو انسرجنسی کا شکار نوگوایریا بن چکا تھا لوگ خوف و ہراس میں مبتلا تھے ہر طرف جنگل کا قانون تھا ہمہاری مثبت سیاسی جدوجہد کی وجہ سے سیاسی عمل کو پزیراہی ملی آج نوجوان ہتھیار کے بجائے قلم و کتاب کو اپنا بہترین دوست سمجھ کر جمہوری سیاسی جدوجہد میں شامل ہورہے ہیں یہ ہماری غیر معمولی کامیابی سے کم نہیں لیکن آج ایک منظم سازش کے تحت جمہوری قوتوں کو دیوار سے لگاکر بلوچستان کے حالات کو ایک بار پھر خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ان معروضی و زمینی حقائق کی روشنی میں جمہوری سیاسی قوم پرست قوتوں کو ایک پیج پر کھڑے ہوکر بلوچ سرزمین کے تحفظ کے لئے موثر حکمت عملی اپنانی ہوگی انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج بلوچستان شدید معاشی وتعلیمی پسماندگی کا شکار ہے تعلیمی ادارے عدم توجہی اور حکمرانوں کی تعلیم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے تبائی کی جانب جارہے ہیں جس کی واضح مثال بلوچستان یونیورسٹی ہے ۔

جسے نااہل تعلیم دشمن وائس چانسلر کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اس اہم تعلیمی ادارے کو تبائی کے دھانے پر لاکھڑا کردیا ہے طلبا سے امتیازی سلوک،میرٹ کو پامال کرکے اپنے من پسند و رشتہ داروں کو یونیورسٹی کے اہم پوسٹوں پر تعینات کرنا،طلبا کے فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ،طلبا تنظیموں کے رہنماوں کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر جیسے ان تعلیم دشمن پالسیوں کو وائس چانسلر نے اپنا شیوا بنا لیا ہے۔

اسی طرح تربت یونیورسٹی میں تعصب اقرباپروری پسند و ناپسند نے یونیورسٹی کو تبائی کی جانب لے گیا ہے یونیورسٹی انتظامیہ اپنے بالائی ادارے کے فیصلوں کی نفی کرتے ہوئے ایک سے زائد پوزیشنوں میں براجمان اضافی چارج کو سیلنڈر کرانے میں کوتائی کررہی ہے اب بھی ایسے بھی لیکچرارز ہے جن کے پاس اضافی چارج ہیں لیکن وائس چانسلر کے من پسند ہونے کی وجہ سے ان سے اضافی چارجز واپس نہیں لئے جارہے ۔

وائس چانسلر نے یونیورسٹی کو اپنا ذاتی جاگیر سمجھ کر وہاں اپنا قانون نافذ کیا ہے یونیورسٹی میں طلبا تنظیموں کو سیاست کی اجازت نہیں لیکن ان کے اپنے یونینز بنائے جارہے ہیں کسی بھی تعلیمی ادارے میں پرامن طلبا تنظیموں کا کردار تعمیری ہوتا ہے ۔

ہم ادارے کی بھلائی کے لئے ایک تعمیری اور اکیڈمک سوچ کے تحت تعلیمی اداروں کے مسائل کو اجاگر کرتے رہے ہیں اگر وائس چانسلر تربت یونیورسٹی اپنے تعلیم دشمن پالیسیوں سے باز نہیں آئے تو بی ایس او(پجار)سخت لائحہ عمل طے کریگی اجلاس نے دیگر اہم تنظیمی فیصلے بھی کئے۔