|

وقتِ اشاعت :   September 19 – 2018

بیشتر ترقی پذیر ملکوں میں خطرے کی گھنٹی اُس وقت بجائی جاتی ہے جب خطرہ سر پر آ چکا ہوتا ہے۔پہلے سے منصوبہ بندی شاذ و نادر ہی کی جاتی ہے۔اگر زمینی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بعض منصوبوں کی نشان دہی کر بھی لی جائے تو انھیں اُس وقت تک ترجیح نہیں دی جاتی، جب تک کہ خطرہ ہمارے سر پر منڈلانا نہ شروع ہو جائے۔پاکستان کوئی مختلف ملک نہیں ہے۔

تازہ ترین مثال یہ ہے کہ اب یہ اطلاعات ہیں کہ 2025 تک پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی۔اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے پاکستان کو صرف ایک نہیں بلکہ کئی ڈیموں کی ضرورت ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دیا میر- بھاشا ڈیم پر توجہ اور اس پراجیکٹ کو مکمل کرنے کی عجلت پر اصرار انتہائی غیر متوقع ذریعے— چیف جسٹس آف پاکستان،ثاقب نثار کی طرف سے سامنے آیا ہے۔

جب میں نے2011 میں اس ڈیم پر آرٹیکل لکھا تو اُس وقت اس پراجیکٹ کی تخمیناً لاگت 11.7 بلین ڈالر تھی،جو اب بڑھ کر 14.6 بلین ڈالر ہو چکی ہے،یہ رقم 1.7 ٹریلین روپے سے زیادہ بنتی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کا ساتھ دیا اور پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ ڈیم فنڈ میں چندہ دیں ۔ان کی اپیل کا رخ زیادہ ترسمندر پار پاکستانیوں کی طرف تھاجو ان کے خیراتی منصوبوں اور ان کی پارٹی کے لیے چندہ دیتے رہے ہیں۔

تنقید کرنے والوں کی یہ بات کسی حدتک صحیح ہے کہ اتنا بڑا ڈیم محض چندہ اکٹھا کر کے تعمیر نہیں کیا جا سکتا۔مگر ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ تخمیناً لاگت کی ایک دم ضرورت نہیں ہے ،کیوں کہ اتنے بڑے حجم کے ڈیم کی مدت تکمیل گیارہ سال بتائی جاتی ہے۔ حکومت کے لیے یہ دانش مندانہ بات ہو گی کہ وہ اس ڈیم کی تعمیر کے لیے درکارسالانہ رقم مختص کرے ، تاہم یہ سوچتے ہوئے کہ اس پراجیکٹ کا آغاز 2006 میں جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا ،حکومت کی طرف سے پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ کی تخصیصات میں ڈیم کے لیے کافی فنڈز فراہم نہیں کیے گئے۔اس کا نتیجہ اس انتہائی اہم منصوبے پر کام میں تاخیر کی صورت میں نکلا۔

ایک ایسے معاشرے میں جس پر سیاست بری طرح سے حاوی ہے،اس قسم کے میگا ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان کی طرف سے شروع کیا جانے والایہ سب سے بڑا پبلک سیکٹر پراجیکٹ ہے۔پچھلا بڑا پراجیکٹ تربیلا ڈیم تھاجس پر زیادہ تر سرمایہ کاری ،سندھ طاس معاہدے پر پاکستان- بھارت مفاہمت کے حصے کے طور پر عالمی بینک کی طرف سے کی گئی تھی اور اس نے42 سال قبل کام شروع کیا تھا۔پانی کے ذخیرے کی مقدار کے حوالے سے تربیلا دنیا کا تیسرا سب سے بڑا ڈیم ہے۔

صوبوں کو متنازع کالا باغ ڈیم پر آمادہ کرنے میں ناکامی کے بعد بھاشا ڈیم،جو تکمیل کے بعد تربیلا سے بڑا ہو گا،کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل(سی سی آئی)کی طرف سے جولائی2010میں دی گئی تھی۔متنازع کالا باغ ڈیم پر بہت وقت ضائع ہو چکا،جو اب بھی سندھ اور خیبر پختونخوا کو قابل قبول نہیں ہے۔مگر بہت بڑے ڈیم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہمارے دریاؤں میں زیادہ پانی نہیں ہے اور پانی کے حصے کی تقسیم پر صوبوں کے درمیان اختلاف ہے۔سندھ کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ اسے کم سے کم 10MAF پانی کی ضرورت ہے۔فی الوقت صرف4-6MAF پانی ملتاہے۔اس کے نتیجہ میں زمینیں بنجر ہو گئیں اور آبی حیات اور ماہی گیروں کے گاؤں دیہات کے لیے سنگین مسائل پیدا ہو گئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پانی کی تقسیم پر صوبوں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔بڑے ڈیموں کے بعض حامی ہمیشہ یہ منفی پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں کہ ملک اپنا پانی ضائع کر رہا ہے جو سمندر میں چلا جاتا ہے۔مجھے موسمیاتی مضمرات کے بارے میں لوگوں کی کم علمی پر حیرت ہے۔وفاق کے ساتھ چلنے کا صحیح راستہ یہ ہے کہ پانی کے بارے میں نیا معاہدہ کیا جائے کیوں کہ 1991 کا معاہدہ فرسودہ ہو چکا ہے۔بعض قوم پرست سندھی رہنماؤں کو سندھ کے اوپر کی جانب کوئی ڈیم بنانے پر اب بھی تحفظات ہیں،دیا میر- بھاشا پراجیکٹ کا مثبت پہلو یہ ہے کہ سندھ میں اس کی مخالفت نہ ہونے کے برابر ہے اور کالا باغ ڈیم کے حوالے سے خیبر پخونخوا کے ماحولیاتی خدشات بھی دور ہو گئے ہیں کیوں کہ ڈیم کی جگہ تبدیل کر دی گئی ہے۔

تقریباً گیارہ سال میں اپنی تکمیل کے بعد بھاشا ڈیم ملک کی موجودہ 6500 میگا واٹ بجلی میں 4500 میگا واٹ بجلی شامل کرے گا۔اس6500 میگاواٹ بجلی میں 4347 میگاواٹ ہائیڈرو پاور ،موجودہ تربیلا اور منگلا ڈیموں کی طرف سے آتی ہے۔ایک ایسے ملک میں جہاں ” بجلی فساد” کی نئی اصطلاح رائج ہوئی ہے ،عام طور پر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ ہم پانی سے بجلی پیدا کرنے کے وسائل کو ترقی کیوں نہیں دیتے؟ماہرین نے بارہا میڈیا پر اس سوال کا جواب دیا ہے مگر یہ وضاحتیں ختم نہیں ہوتیں اور اب بھی میڈیا کی طرف سے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ 6500 میگاواٹ بجلی کبھی بھی دستیاب نہیں رہی۔اس کے بہت سے اسباب ہیں: زیادہ تر چھوٹے اور بڑے ڈیموں پر نصب شدہ جنریٹرزپرانے ہیں اور اتنی بجلی پیدا نہیں کر سکتے جتنی ان کے اوپر درج ہے؛ تربیلا اور منگلا ڈیم ، دونوں میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 19 فیصد کم ہوئی ہے؛ ہائیڈرو پاور کا انحصار سیزن پر ہوتا ہے۔چوں کہ سردیوں میں کم پانی ہوتا ہے اس لیے ، بجلی پیدا کرنے کی گنجائش بھی کم ہو جاتی ہے؛ اور بجلی پیدا کرنے کے لیے ڈیموں سے اسی صورت میں پانی خارج کیا جاتا ہے جب IRSA کے تمام ارکان اس پر متفق ہوں کیوں کہ ان ڈیموں میں ذخیرہ کیے ہوئے پانی کوخریف اور ربیع کی فصلوں کے وقت دریاؤں کے پانی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ڈیم پانی ذخیرہ کرنے کی 5MAF سے زیادہ گنجائش سے محروم ہو چکے ہیں۔تربیلا کا چوتھا توسیعی پراجیکٹ بھی مکمل ہو چکا ہے۔اس پس منظر میں دیا میر- بھاشا ڈیم کی تعمیر پاکستان کی زراعت کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتی ہے، کیوں کہ یہ پاکستان کے آبی ذخیرے کی گنجائش میں مجموعی طور پر 8MAF پانی شامل کرے گا۔

واپڈا کا اندازہ ہے کہ اس پانی سے سالانہ اوسط فائدہ50 بلین روپے سے زیادہ کا ہو گا۔اگر سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی سالانہ بچت اور 106 بلین روپے کی بجلی کی پیداوار کے فائدے کو بھی شامل کیا جائے تو توقع ہے کہ ڈیم کی لاگت چھ سے آٹھ سالوں میں پوری ہو جائے گی۔اگر یہ پراجیکٹ مقررہ وقت کے اندر مکمل ہو جائے اور لاگت میں کوئی اور اضافہ نہ ہو تو یہ کوئی برا سودا نہیں ہے۔ ہمارے پبلک سیکٹر پراجیکٹس کے ٹریک ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ اس گیارہ سال کے منصوبے کی تکمیل کی مدت کے دوران ، پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت سمیت کم سے کم تین حکومتیں ،اگر انھوں نے اپنی میعاد پوری کی،تبدیل ہوں گی،ایک مشکل نظر آتی ہے۔

اس سے پہلے کہ میڈیا میں شک و شبہ کا اظہار کرنے والے ساتھی اور تنقید پسندیہ سوال کریں کہ 14 بلین ڈالر کہاں سے آئیں گے ،میں اس سوال کا جواب دیتا ہوں۔جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں یہ ساری رقم فوری طور پر درکار نہیں ہو گی۔اگر ہم 11 سال کی تعمیراتی مدت پر اوسط نکالیں تو یہ1.27 بلین ڈالر سالانہ بنتی ہے۔اگر ملک کو اپنے وسائل سے بھی پوری کرنی پڑے تو یہ کوئی بہت بڑی رقم نہیں ہے۔ذرا غور کیجئے کہ : حکومت پبلک سیکٹر کی بیمار کمپنیوں کو سالانہ ایک ٹریلین روپے سے زیادہ کی سبسڈی دے رہی ہے۔

جب میں نے واپڈا کے سابق چےئرمین ،شکیل درانی سے اس پراجیکٹ کی فنانسنگ کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ قرض دینے والی مختلف ایجنسیوں سے بات چیت کے پیش نظر ڈیم کے لیے رقم حاصل کرنا مسئلہ نہیں ہو گا۔انھوں نے اُس وقت ہونے والی بات چیت کی بنیاد پر اعتماد کے ساتھ کہا کہ ” توقع ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک(اے ڈی بی)کنسورشیم کی قیادت کرے گا ،جس کی اعانت اسلامی ترقیاتی بینک ،یو ایس ایڈ اور جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی کی طرف سے کی جائے گی” ۔مگر ایسا لگتا ہے کہ بھارتی دباؤ کی وجہ سے یہ ڈونرز پیچھے ہٹ گئے ہیں،جو کہتا ہے کہ گلگت- بلتستان کشمیر کا حصہ ہے اور اس طرح یہ متنازع علاقہ ہے جہاں ڈیم تعمیر نہیں کیا جانا چاہیئے۔

بہت سے فعال سماجی کارکن بڑے ڈیموں کی تعمیر پر عام طور سے پریشان ہو جاتے ہیں کیوں کہ لوگوں کو وہ علاقہ چھوڑنا پڑتا ہے اور آس پاس کے علاقے زیر آب آ جاتے ہیں۔چونکہ یہ ڈیم کم آبادی والے گلگت – بلتستان میں بنایا جا رہا ہے اور اس کا آؤٹ فال ساتھ ملنے والے کے پی صوبے میں ہو گا اس لیے بے گھر ہونے والے خاندانوں کی تعداد چند ہزار ہی ہو گی۔مگر کچھ مقامی رہنماؤں نے اس ڈیم کے خلاف احتجاج کیا ہے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ معاوضے کی ادائیگی اور دوبارہ آباد کاری منصفانہ طریقے سے نہیں کی گئی۔

تاہم ڈیم پراجیکٹ مینجرز کے لیے سب سے بڑا چیلنج قراقرم ہائی وے کے لگ بھگ 100 سو کلومیٹر حصے کی زیادہ بلندی پر دوبارہ تعمیر ہے، کیوں کہ جب ڈیم بنے گا تو یہ حصہ زیر آب آ جائے گا۔

اس عام تاثر کے بر عکس کہ ہائیڈرو پاور کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، میرا گلگت- بلتستان،فاٹا اور چترال کا دورہ ظاہر کرتا ہے کہ دریاؤں سے چلنے والے لاتعداد چھوٹے پاور پلانٹس پہلے ہی کامیابی سے کام کر رہے ہیں اور مقامی دیہات کی بجلی کی مانگ پوری کر رہے ہیں۔ چترال کا ایک بزنس مین نہ صرف ایک میگا واٹ بجلی پیدا کر رہا ہے بلکہ ایون وادی کے لوگوں کو براہ راست تقسیم بھی کر رہا ہے۔ایون کے ایک مقامی باشندے نے مجھے بتایا کہ” اس بجلی کے نرخ واپڈا کی بجلی کے نرخوں سے بہت کم ہیں” ۔

واپڈا کا کہنا ہے کہ اس کے مختلف چھوٹے اور درمیانے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس پائپ لائن میں ہیں جو تکمیل کے بعد 30,000 میگا واٹ بجلی فراہم کر سکتے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر پراجیکٹس شمال— گلگت- بلتستان،کے پی کے اور آزاد کشمیر میں ہیں۔مگر ان22 منصوبوں پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ نیلم جہلم جیسے چند بڑے منصوبوں کو چھوڑ کر ان میں سے زیادہ تر ڈرائنگ بورڈ سے آگے نہیں بڑھے۔

اس سب کچھ کے باوجود،دیا میر- بھاشا ڈیم جس کی لاگت اب بڑھ چکی ہے،ایک قابل عمل منصوبہ ہے اور یہ صرف سات سے آٹھ سالوں میں اپنی لاگت پوری کر دے گا۔
کالم نگار تک رسائی کے لیے(ayazbabar@gmail.com)