|

وقتِ اشاعت :   September 23 – 2018

کوئٹہ:  بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا ہے کہ حکومت متنازعہ معاملات کر ہوا دیکر اپنی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔

وزیراعظم کی جانب سے افغان اور بنگالی مہاجرین کو شہریت دینے کے بیان پر حیرت ہوئی ہے اہمیں وزارتوں اور مراعات سے نہیں منایا جاسکتا ، صوبے میں 200کے قریب لاپتہ افراد بازیاب ہوکر گھر آئے ہیں لیکن کچھ نئے افرادبھی لاپتہ ہوئے ہیں، بلوچستان کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کیا جائے اس پر ہمیں اعتماد میں لیا جائے ۔

سی پیک سے متعلق چین اور سعودی عرب سے کیے جانے والے معاہدوں کو اسمبلی میں لایا جائے ،چندوں سے ڈیم نہیں بنتے دعا کرسکتا ہوں کہ چندے سے ڈیم بن جائیں ،اٹھارویں ترمیم میں ترمیم یا اسے ختم کرنا ناقابل قبول ہے،یہ بات انہوں نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ۔

سردار اختر مینگل نے کہا کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت بنا رہی تھی انہیں ووٹوں کی ضرورت کی تھی جس پر انہوں نے ہم سے رابطہ کیا جس کے بعد ان سے وفود کی سطح پر مذاکرات کے بعد چھ نکاتی معاہدہ طے پایا تھا اس معاہدے میں سی پیک ،افغان مہاجرین ، معدنی وسائل ،مسنگ پرسنز، وفاق میں بلوچستان کا کوٹہ پر باہمی صلاح مشورے سے معاملات طے کیے ،مجھے حیرانی ہوئی جب وزیراعظم نے کراچی میں بیان دیا کہ افغانی اور بنگالیوں کو شہریت دی جائے گی ۔

ہم نے امید نہیں کی تھی کہ وہ ایک ماہ کے اندرہمارے مسئلے حل کرتے اور یہ بھی امید نہیں تھی کہ اگر وہ ہمارے مسائل حل نہیں کرپارہے تو اس کے برعکس بھی وہ کوئی فیصلہ کرتے ، انہوں نے کہا کہ ہمارے قومی اسمبلی کے اجلاس میں واک آؤٹ کے بعد بتایا گیا کہ وزیراعظم نے اپنا بیان واپس لے لیا ہے اور کہا ہے کہ ہم اس حوالے سے صلاح مشورے کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اسپیکر قومی اسمبلی ،جہانگیر ترین ، پرویز خٹک نے گذشتہ روز ان سے ملاقات کی ہے اور باور کروایا ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہواہے ہم تمام اتحادیوں اور پارلمینٹ کو اعتماد میں لیکر کوئی فیصلہ کریں گے انہوں نے کہا کہ مہاجرین کو شہریت دینے سے کیاہم انسانی بنیادوں پر پورا اتریں گے کیا ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہو رہیں ؟

افغان مہاجر 40سالوں سے کیمپوں میں ہیں کسی ایک بھی حکومت نے کیا مہاجر کیمپوں کا دورہ کیا ؟ کیا تمام انسانی حقوق کا بیڑہ پاکستان نے اٹھایا ہے ؟ ایران میں بھی مہاجرین ہیں لیکن انہیں بھی شہریت نہیں دی گئی ،کیا ہم نے اپنے ملک کے لوگوں کو انسان سمجھا ہے ؟ ہم پہلے اپنا گھر سنواریں پھر دوسروں کی بات کریں،انہوں نے کہا کہ ملک پہلے ہی بحرانوں کا شکار ہے ۔

معیشت دن بدن گرتی جارہی ہے ہم اپنے لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کر پارہے ، اس وقت ملک میں غیر ملکیوں کی تعداد 50لاکھ کے قریب ہے ان سب کو کہاں ایڈجسٹ کریں گے لوگ بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کر رہے ہیں ۔

سردار اختر مینگل نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ایران کی طرز پر مہاجرین کو کیمپ تک محدود کیا جائے افغانستان کے جن علاقوں حالات بہتر ہیں وہاں کے باشندوں کو واپس بھیجا جائے جبکہ دیگر مہاجرین کا ڈیٹا اکھٹا کیا جائے ، مہاجرین کو ووٹ ڈالنے، جائیدار خریدنے ، شناختی کا حق نہ ہو تو وہ یہاں رہ سکتے ہیں ،آج نہیں تو کل مہاجرین کو جانا ہوگاملک میں غیر رجسٹرڈ غیر ملکی کاروبار کر رہے ہیں یہ مسئلہ پورے پاکستان کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے 1979میں کہا تھا کہ مہاجرین کو کمپیوں میں رکھا جائے غلطی کسی فرد یا ادارے نے کی آج اسکا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے اگر آج ایک بار پھر کوئی ایسا فیصلہ کیا گیا تو کل اسکا الزام وزیراعظم عمران خان پر آئے گا ، افغانی پاکستان میں جرائم میں ملوث ہیں وہ افغانستا ن جا کر اپنے ملک کی بہتری میں کردار ادا کرسکتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے وزارتوں یا مراعات کے لئے حکومت کا ساتھ نہیں دیا ہمیں وزارتوں کی پیش کش بھی کی گئی ہے لیکن ہماری ترجیحی وزارتیں نہیں ہیں ہمیں وزارتوں سے نہیں منایا جاسکتاہمارے نکات میں ایک لفظ بھی ملک یا ریاست مخالف ہوگا تو تمام مطالبات واپس لیں گے اگر انہیں نہیں مانا جاتا تو یہ ملک مخالف ہوں گے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگروفاقی حکومت بلوچستان کے معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہتی ہے تو ہمارے چھ نکات اسکا حل ہیں ہم نے حکومت کو ایک سال کا وقت دیا ہے کہ اگروہ 40فیصد بھی چھ نکا ت پر عمل کرلیں تو شاید ہم حکومتی پنچوں پر بیٹھیں اگر نہیں تو پھر ہم آزاد پنجوں سے اپوزیشن میں بھی جاسکتے ہیں ۔

ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ ساتھ لیکر چلیں ہمیں گھسیٹا نہ جائے ہم بہت گھسیٹے گئے ہیں اب مزید ایسے نہیں چل سکتے ،ساتھ بیٹھا نے یا کھڑے کرنے کھانہ کھانے کو ساتھ چلنا نہیں کہتے ساتھ چلنا اسے کہتے ہیں جب ہمارے مسائل پر بات چیت کی جائے ہمارے زخموں پر مرحم رکھا جائے ،بلوچستان سے زیادتیوں کا اعتراف ماضی میں بھی کیا گیا معافیاں بھی مانگی گئیں لیکن اس کے بدلے جو کچھ دیا گیا دو دوگنا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت چھ نکات پر عمل نہیں کرسکتی تو بتا دے ، حکومت نے بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی بنا کر ڈیٹا اکھٹا شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے جس میں ہمارے ارکان بھی شامل ہونگے ،اگر کوئی مسئلہ حل نہیں ہو پارہا تو حکومت بتائے جہاں 70سال انتظار کیا ہے وہاں 7ماہ اور انتظار کریں گے۔

سی پیک سے متعلق سوا ل کے جواب میں سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ سی پیک معاہدے کی شرائط کسی کو معلو م نہیں جب معاملات چھپائے جاتے ہیں اس سے شکوک بڑھتے ہیں اور دوریاں پیدا ہوتی ہیں ،ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کیا جائے اس پر ہمیں اعتماد میں لیا جائے کوئی بھی مسئلہ اسمبلی میں پیش ہو گا اس پر بھی اعتماد میں لینا چاہیے۔

سی پیک کے چین اور سعودی عرب سے ہونے والے معاہدوں کو اسمبلی میں لاناچاہیے ،انہوں نے کہا کہ اگر منتخب نمائندے آپ کے اعتماد پر پورا نہیں اترتے تو اسمبلی کی بلڈنگ کیوں رکھی گئی ہے ؟،کیا آپ منتخب نمائندوں سے زیادہ چین اور سعودی عر ب پر اعتماد پر ہے ؟انہوں نے کہا کہ ساحل وسائل پر صوبوں کو اختیار دیا جائے انہیں اسٹیک ہولڈر بنایا جائے نہ کہ گواہ رکھا جائے ۔

بلوچستان کی سی پیک میں اہمیت ہے ،صوبے کے وزیراعلیٰ کو کم از کم یہ باور کروایا جائے کہ وہاں کے مالک بلوچستان کے لوگ ہیں ،انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہے،جب تک واضح نہیں ہوتا کہ سعودی عرب کس طور پر شامل ہونا چاہتا ہے کچھ نہیں کہہ سکتے ،یہ روٹ سعودی عرب سے منسلک نہیں ہے یہ بات مجھے سمجھ میں نہیں آرہی کہ وہ اس میں کیوں شمولیت کررہا ہے ، انہوں نے کہا کہ بتایا جائے کہ کیا سی پیک سے آنے والے پیسے سے بلوچستان میں کوئی سڑک، ایک ہسپتال ، یونیورسٹی ، انڈسٹریل زون بنایا گیا ؟ یہ نہیں ہونے دیں گے کہ گوادر اور بلوچستان کو دکھا کر کسی اور علاقے میں ترقی کی جائے ۔

انہوں نے کہا کہ خارجی پالیسی کے اختیارات نہ سیاسی لوگوں کے پاس نہ تھے نہ ہیں، ابھی ہم اس مرحلے میں نہیں پہنچے ،ابھی ابتداء ہے کچھ دن میں معلوم ہوجائیگا کہ کس کے پاس کتنے اختیارات ہیں ، ہمارا الیکشن کمیشن بااختیار نہیں ہے خارجہ اور داخلہ پالیسی دور کی بات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے صوبوں کو کسی حد تک فائدہ ہوا ہے اس ترمیم کو ختم کرنا بہت بڑا مذاق ہوگا اسے بلوچستان سمیت کسی بھی صوبے کے لوگ تسلیم نہیں کریں گے اگر ایسا کوئی اقدام کیا گیا تو اس سے حکومت کو شدید مخالفت کاسامنا کرنا ہوگا۔

ہم اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی کسی بھی صورت تسلیم نہیں کریں گے،انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لا پتہ افراد میں سے کچھ لوگ واپس آئے ہیں جن کی تعداد 200 کے قریب ہے ان میں سے کچھ ڈیرہ بگٹی،قلات، مستونگ ،کوئٹہ کے لوگ لیکن کچھ نئے لوگ گئے بھی ہیں ، وزرات لاء اینڈ جسٹس ،وزارت داخلہ اس پر کام کر رہی ہیں ،نئے جانے والوں کا سلسلہ بند ہونے سے تاکہ ہم لوگوں کے تسلی دے سکیں ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ڈیموں کی ضرورت ہے صوبے کا زیادہ حصہ زیر زمین پانی پر انحصار کرتا ہے ، زیر زمین پانی1500فٹ تک گر چکا ہے زیر زمین پانی کو ری چارج کرنے کے لئے ڈیمز کی ضرورت ہے ،انہوں نے کہا کہ چندوں سے ڈیم نہیں بنتے دعا کرسکتا ہوں کہ چندے سے ڈیم بن جائیں اگر بن گئے تو خوش نصیبی ہوگی ان ڈیموں کا بلوچستا ن کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو مثبت کا م کرنے چاہیے متنازعہ معاملات کو اٹھا کر حکومت اپنے لیے مسائل پیدا کرنا چاہتی ہے ،تین صوبوں نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی ہے جب تین صوبے مخالفت کررہے ہیں تو مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی ضرورت کیا ہے ،کیا کالا باغ ڈیم اہم ہے یا ملک کی سالمیت اہم ہے یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔

سردار اختر مینگل نے مزید کہا کہ الیکشن میں حصہ لینے والی تمام جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کی بات کررہی ہیں ،ہم جیتنے کے باوجود بھی دھاندلی کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں جو سیٹیں ہمیں دی گئیں صرف وہ ہماری نہیں تھیں ہمارے بھی کچھ نشستوں پر اعتراضات ہیں دھاندلی میں ملوث تمام لوگوں کو سزا دی جائے تو دھاندلی کا ناسور ختم ہوجائیگا ورنہ ہر الیکشن کے بعد دھرنے ہونگے اگر پارلیمانی کمیٹی کو اختیارات دئیے جائیں اوروہ آزادنہ تحقیقات کریں وہ سزا دی جائے سکتی ہے ۔سزا کا معیار شیروانی ، پینٹ شرٹ ، وردی ،شلوار کمیض والوں کے لئے ایک جیسا ہونا چاہیے۔

دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی صدراوررکن قومی اسمبلی سرداراخترجان مینگل نے کہاہے کہ ملک میں پارلیمنٹ ،عدلیہ سمیت تمام ادارے اپنے فیصلوں اورانصاف کی فراہمی میں آزادہے اورنہ ہی کو ئی سسٹم درست اندازمیں چل رہاہے ،70ء کے بعد ملکی تاریخ میں کوئی بھی الیکشن صاف وشفاف نہیں ہوا ۔

میاں نوازشریف ملک کے ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے اسلام آبادسے رہائی ملکی سیاست پر نئے اثرات مرتب کریگی، ساحل اوروسائل کے مالک ہونے کے باوجود بلوچستان کے باسی دووقت روٹی پر قادرنہیں ،آٹھارہویں ترمیم صورت جو کچھ وہ غنیمت سمجھتے ہیں اگرواپس لیا گیا جو تومرکزمیں اتحادی ہونے کے باوجودمخالفت کرینگے ۔

ان خیالات کا اظہارانھوں نے بی این پی کے مرکزی رہنماء ملک عبدالولی کاکڑ اورملک عبدالمجیدکاکڑ کی رہائشگاہ کچلاک پریس کلب کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہی ،انھوں نے کہاکہ گوادرجس کے نام سے سی پیک ہے ۔

چائینزنے جوترقیاتی فنڈزرکھی ہے اس میں تو گودرکے عوام کے لئے ایک کوڑی تک نہیں رکھی ،اس میں پانی کی فراہمی ،روزگار،پورٹ اینڈ شیپنگ میں بھرتیاں تک باہرسے کی گئی ہے ،ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس بلوچستان کی تقدیر بدلے گی ،تاہم بلوچستان کی گیس اورسیندک کی وسائل سے دوسرے صوبوں کی تقدیر ضرورتبدیل ہوئی ہیں ۔

اسی طرح اگر بلوچستا ن ساحل اوروسائل کو لوٹ کر حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی تقدیر بدل جائیگی ،تو انھیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہم اب اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں،اورہم سمجھتے ہیں کہ ہماری تقدیر کس چیزسے بدلتی ہیں،تو جب تک ساحل اوروسائل کا اختیاربلوچستان کے عوام کو نہیں دینگے تو اس وقت تک وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے دعوئے جھوٹ اورفریب سے سواء کچھ نہیں ۔

وزیر اعظم عمران خان کو بی این پی نے معاہدے تک سپورٹ کی ہے ،ہمارامعاہد ہ ذاتی مفادات کے لئے نہیں تھا،دراصل جو بھی آتا وہ بلوچستان کی حقوق کی بات توکرتے ہیں لیکن ان کوبلوچستان کااصل مسئلہ سمجھ نہیں آرہا ،یاسمجھنا ہی نہیں چاہتے ،ااورہمیں امید بھی نہیں کہ وہ دویا تین مہینوں میں 70ء سال کے مسائل حل کرسکے گی ،اورہم یہ بھی امیدنہیں رکھتے ہیں کہ وہ ان مسائل کو حل کرانے کے بجائے منفی اعلانات کریں جو ان معاہدوں کی نفی کریں ،ہم حکومت کا حصہ نہیں بلکہ آزادبینچوں پر بیٹھے ہیں ۔

ہمارامعاہدہ بلوچستان کے تمام مسائل کا حل نہیں بلکہ ان مسائل کی حل کی جانب ایک راستہ ضرورہیں،جو سابقہ حکمران اب تک ڈھونڈ نہ پاسکے ،انھوں نے کہا ماضی میں معاہدات ذاتی مفادات کے لئے کئے تھے ،جو وزارتوں اورٹھکیوں کی شکل میں حاصل کی ،ہم نے گیندحکمرانوں کے کورٹ میں پھینک دیاہے اب یہ ان پرمنحصر ہے کہ وہ ہماری تجاویزکاکیا حل نکالتے ہیں ۔

انھوں نے کہاکہ ملک تاریخ میں 1970ء کے بعدکوئی بھی الیکشن صاف اورشفاف نہیں ہوئیں ہیں ، صرف 70ء کا الیکشن تھاجس کے نتائج تسلیم نہ کئے جانے کی پاداش میں ملک دولخت ہوا،جس کے بعدآج تک جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ان میں خفیہ ہاتھوں کو بری الذمہ قرارنہیں دےئے جا سکتے ،تاہم یہ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہیں کہ وہ اگر ماضی کے ایسے اقدامات کو روکناچاہتے ہیں تو انھیں ایک صحفے پر آناہوگا۔

ہمارا تحریک انصاف کے ساتھ چھ نکاتی معاہدہ ہوا،اس حوالے ہم نے ماضی میں بھی اس طرح کے معاہدات کئے تھے ،جہاں کبھی بلوچستان کی سطح پراپوزیشن نے ساتھ دیا اورکبھی نہیں ہمارا مقصدپارٹی کے موقف اورآئین ومنشورپر عمل درآمدکرناہے۔

تاہم مہاجرین کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان نے جوبیان دیا تھا،اس کے دوسرے دن اسمبلی کی فلورپر وضاحت کی ،کہ ہم صرف تجاویز دی ہیں کہ ان کو شناختی کارڈزاورپاسپورٹ دینا چاہیے یانہیں ،ملک بھراورخصوصابلوچستان میں چھوٹے بڑے ڈیمزکی تعمیر ہمارے تجاویزمیں شامل ہیں ،جہاں تک کالاباغ ڈیم کاتعلق ہے تواس کے خلاف بلوچستان سمت ملک تینوں صوبوں نے قراردادیں پاس کی ہیں ،کوئی بھی قراردادیامنصوبے جس میں صوبوں کی مشاورت یا رضامندی شامل نہ ہوان کے اثرات منفی آئی تھی اورآنے والے دنوں میں بھی ایسے فیصلوں کے اثرات منفی ہی پڑیں گے ۔

بلوچستان میں تبدیلی کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کی منتیں اوردعائیں ہی کا اثر ہے کہ مجھے بلوچستان سے اسلام آبادبھیج دیا،بلوچستان میں لیویزاہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کی روک تھا م صوبائی حکومت اورریاستی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہیں ،کہ وہ کھوج لگائیں،،ہماری مساجد،امام بارسمت گائیں ،گرجاگر،مندرسمت مذہبی عبادت گائیں غیر محفوظ تھے ،ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گورنر کی تعیناتی اورعدم تعیناتی سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ سابقہ گورنر بھی نہ ہونے کے برابرتھا ،یہ کوئی خاص ایشوء نہیں۔