|

وقتِ اشاعت :   September 27 – 2018

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیرصدارت بدھ کے روز یہاں منعقد ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم کی رپورٹ کی روشنی میں غیرمعیاری ترقیاتی منصوبوں کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے متعلقہ محکموں کو اس حوالے سے انکوائری مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

کابینہ کے اجلاس میں سی ایم آئی ٹی کی رپورٹ اور ترقیاتی منصوبوں کے غیر معیاری کام کے ویڈیو کلپس پیش کئے گئے اور اجلاس کو بتایا گیا کہ کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں سی ایم آئی ٹی کی ٹیموں جن میں تعمیراتی انجینئرز بھی شامل ہیں نے صوبے کے مختلف ضلعوں میں جاری دو سو سے زائدترقیاتی منصوبوں کے تعمیراتی معیار کا معائنہ کرکے رپورٹ مرتب کی ہے اور غیرمعیاری ترقیاتی منصوبوں کے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی سفارش کی ہے ۔

کابینہ نے اس امر سے اتفاق کیا کہ وسائل کا ضیاع ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا اور منصوبوں کے تعمیراتی معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ کابینہ نے صوبے کے ہر ضلع میں ایک ریذیڈنشل کالج کے قیام کی منظوری بھی دی ۔ کابینہ نے ہندو میرج بل 2017ء (دی بلوچستان ہندو میرج رولز 2018ء) کے قوانین میں بعض ترامیم کی منظوری دی۔

کابینہ نے ایک تا 18گریڈ تک کے افسران واہلکاران کی ٹرانسفر پوسٹنگ کا اختیار متعلقہ محکمے کے انتظامی سیکریٹری کو دینے سے اصولی طور پر اتفاق کرتے ہوئے چیف سیکریٹری کو اس ضمن میں سمری وزیراعلیٰ کو پیش کرنے کی ہدایت کی۔کابینہ نے صوبے کی یونیورسٹیوں ، میڈیکل کالجوں، ریذیشنل کالجر، پولی ٹیکنیک کالجز اور کیڈٹ کالجز سے متعلق امور کا جائزہ لینے کے لئے کابینہ کی سب کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا جو ان اعلیٰ تعلیمی اداروں کے معیار کی بہتری اور مسائل کے حل کے لئے تجاویز اور سفارشات پیش کرے گی۔

صوبائی کابینہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت بڑی اور پرآسائش سرکاری گاڑیوں کی نیلامی اور قابل استعمال گاڑیوں کی مرمت کی منظوری کیلئے ایس اینڈ جی اے ڈی کی جانب سے پیش کئے گئے ایجنڈہ کا جائزہ لیتے ہوئے ہدایت کی کہ ایم ایم ڈی کے ذریعہ ان تمام گاڑیوں کی موجودہ کنڈیشن کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا جائے جس کے مطابق ناکارہ اور ناقابل استعمال گاڑیوں کو نیلام اور قابل مرمت گاڑیوں کو قابل استعمال بنایا جائے۔

کابینہ نے محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی کو تمام محکموں کی گاڑیوں اور ان کے استعمال کنندہ افسران اور ہلکاروں کی تفصیل فراہم کرنے، غیرمجاز افرا د کے زیراستعمال سرکاری گاڑیوں کی فوری واپسی اور دیگر صوبوں میں چلنے والی حکومت بلوچستان کی گاڑیوں کے حصول کے لئے فوری اور موثر کاروائی کی ہدایت کی۔ کابینہ نے فیصلہ کیا کہ صوبائی وزراء دوگاڑیوں کے استعمال کے مجاز ہیں لہٰذا وہ اضافی گاڑیوں کو فوری طور پر واپس کریں گے۔

صوبائی کابینہ نے بلوچستان ایجوکیشن پروجیکٹ کے تحت کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتی 1690اساتذہ کے کنٹریکٹ کی معیاد میں ایک سال کی توسیع کی منظوری بھی دی تاہم ضلع وار ان اساتذہ کی تصدیق اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ گلوبل پارٹنر شپ فنڈ کے تحت 3570ملین روپے کی لاگت سے بلوچستان ایجوکیشن پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا تھا جس کی مدت تکمیل 6جون 2018تھی تاہم اس میں مزید چھ ماہ کی توسیع کی گئی ہے اس پروجیکٹ کے تحت صوبے میں 725نئے اسکول قائم کئے گئے 95 پرائمری اسکولوں کو مڈل اسکول اور 24مڈل اسکولوں کو ہائی اسکولوں کا درجہ دیا گیا۔

ان اسکولوں میں بچوں کی تعداد 52718ہے حکومت بلوچستان اور گلوبل پارٹنر شپ فنڈ کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت پروجیکٹ کی مدت ختم ہونے کے بعد ان اساتذہ کو تنخواہوں کی ادائیگی کی ذمہ داری حکومت بلوچستان کو منتقل ہوگئی ہے جس پر سالانہ 396ملین روپے کا تخمینہ ہے۔

کابینہ نے بلوچستان گورنمنٹ سرونٹس بینوولنٹ فنڈ ایکٹ 2018ء کی منظوری بھی دی جس کے تحت 10ارب روپے مالیت کے اس فنڈ سے صوبے کے تمام ملازمین یکساں طور پر مستفید ہوسکیں گے۔ سرکاری ملازمین کودوران ملازمت، پنشن کے بعد اور دوران ملازمت انتقال کی صورت میں ان کے بچوں کو تعلیمی اسکالر شپ، شادی الاؤنس، حج اور انتقال کے اخراجات کی ادائیگی میں مالی معاونت ملے گی۔

کابینہ نے شراب خانوں ، شراب کی فیکٹریوں، وائن اسٹورز کے لائسنس اور شراب کی درآمد پر عائد ایکسائز ڈیوٹی اور فیس میں بعض ترامیم کے ساتھ اضافہ کی منظوری بھی دی، اجلاس کو بتایا گیا کہ ان مدات میں عائد محصول اضافہ کے بعد 49کروڑ سے بڑھ کر ایک ارب روپے سالانہ ہوجائے گا، کابینہ نے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو موٹر وہیکل ٹیکس میں اضافہ کی تجویز پیش کرنے اور دیگر اضلاع میں ایکسائز کے دفاتر کے قیام کی ہدایت کی جبکہ ٹیکسوں کی وصولی کے طریقہ کار کی بہتری کے لئے آن لائن ٹیکس کلکشن سسٹم کی فوری فعالی کی ہدایت بھی کی گئی۔

اجلاس میں اس بات سے اتفاق کیا گیا کہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی کارکردگی کو بہتر بناکر محکمے کی آمدن کو آٹھ سے دس ارب روپے تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ اجلاس میں اس بات سے بھی اتفاق کیا گیا کہ صوبے کے اپنے ذرائع آمدنی میں اضافہ کئے بغیر خودانحصاری کا حصول ممکن نہیں اور نہ ہی آئندہ پانچ سالوں میں صوبے کی مالی صورتحال میں بہتری لائے بغیر ترقیاتی عمل کو آگے بڑھانا ممکن ہوگا، اجلاس میں ایف بی آر کے ٹیکسوں کی صوبائی محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ذریعہ وصولی پر پانچ فیصد سروس چارجز کے حوالے سے ایف بی آر اور صوبے کے مابین مسئلے کو مشترکہ مفادات کونسل میں لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔

اجلاس میں محکمہ منصوبہ بندی وترقیات کومالی سال 2019-20کی پی ایس ڈی پی کی تیاری اکتوبر سے شروع کرنے کی ہدایت کی گئی، اجلاس میں ہائیکورٹ کی ہدایت کے مطابق مالی سال 2018-19کی پی ایس ڈی پی میں شامل نئی اسکیموں کا ازسرنو جائزہ لینے اور انہیں قواعدوضوابط کے مطابق بنانے سے متعلق امور کا جائزہ بھی لیا گیا۔ محکمہ منصوبہ بندی وترقیات کی جانب سے کابینہ کو اس ضمن میں جاری کاروائی کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔

کابینہ نے ہدایت کی کہ عدالت کی ہدایت کے مطابق محکمے نئی اسکیموں کا دوبارہ جائزہ لے کر ان میں قابل عمل اور عوامی نوعیت کی اسکیموں کو قواعد وضوابط کے مطابق بناکر منظوری کے لئے پیش کریں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جو جاری اسکیمیں 60سے 80فیصد تک مکمل ہوچکی ہیں ان کے لئے ترجیحی بنیادوں پرفنڈز فراہم کئے جائیں گے۔ کابینہ نے تمام محکموں کو اپنے اپنے دس سال سے زیرتکمیل منصوبوں کا جائزہ لے کر ان میں سے جو اسکیمیں تکمیل کے قریب ہیں او ر ان کے لئے کم فنڈز کی ضرورت ہے کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ عوام کو موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں جن پر پورا اترنے کے لئے ہمیں نہ صرف سخت فیصلے کرنے ہوں گے بلکہ بہت زیادہ محنت بھی کرنا ہوگی۔ ہم گورننس اور مالی وانتظامی نظم ونسق بہتر کرکے عملی طور پر ثابت کریں گے کہ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکومت میں کتنا فرق ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ نظام کی بہتری کا عمل مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے، ہماری نیت صاف ہے اس لئے منزل تک پہنچنا آسان ہوگا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ کابینہ کے تمام اراکین صوبے اور عوام سے مخلص ہیں اور کابینہ کے اجلاسوں میں صوبے کے وسیع تر مفاد میں اتفاق رائے سے کئے جانے والے فیصلوں کے مثبت اثرات جلد ظاہر ہوں گے۔ دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ بلوچستان ہمارا صوبہ اور گھر ہے اگر ہم اپنے گھر کو ٹھیک رکھیں گے تو سب کا فائدہ ہوگا، اور اگر ہم اسے خراب کریں گے تو سب کے لئے برا ہوگا، بدقسمتی سے ہم نے خود بلوچستان سے ظلم کیا اور صوبے کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہم خود ہی ہیں۔

جب ترقیاتی منصوبے کاغذوں تک محدود رہیں اور حکومتیں اپنا کام نہ کریں تومسائل میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، انصاف نہ ملنے سے معاشرے میں بے چینی پیدا ہونا لازمی امر ہے جس سے علاقے تباہ ہوجاتے ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے مستونگ کے معتبرین کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا جس نے بدھ کے روز یہاں ان سے ملاقات کی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ انصاف پر مبنی ایسے معاشرے کی تشکیل کی ضرورت ہے جس میں سب کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ملیں۔

وفاق کے ساتھ بہتر تعلقات رکھ کر بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں، ہم جب تک اقتدار میں رہیں گے عوامی مسائل حل کریں گے اور جو وعدے کریں گے انہیں پورا کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ تمام وسائل عوام کی امانت ہیں، فنڈز ٹھیکیداروں اور چند لوگوں کی جیبوں میں جانے کے لئے نہیں بلکہ ان کا استعمال عوام کی فلاح وبہبود کے لئے ہونا چاہئے، بدقسمتی سے ماضی میں ایسا نہیں کیا گیا اور عوامی نمائندوں نے اپنی ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا نہیں کیں، فنڈز کی تقسیم میں ضلعوں کے درمیان امتیاز برتا گیا۔

پی ایس ڈی پی کے فنڈز کہاں جاتے رہے کسی کو پتہ نہیں ہم نے تحقیقاتی ٹیمیں بنائی ہیں جو استعمال شدہ فنڈز کے مصرف کا جائزہ لے رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ بے تحاشا فنڈز کے استعمال کے باوجود نہ تو روزگار ہے اور نہ ہی کاروبار ہے، ہسپتالوں میں ڈاکٹرز اور ادویات نہیں، اسکولوں میں اساتذہ نہیں، حتیٰ کہ نوکریاں بھی بکتی رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج کی سیاست اور ماضی کی سیاست میں فرق ہے اب عوامی نمائندے عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور اگر ہم نے بھی نظام کی بہتری کے لئے کچھ نہ کیا تو ہماری کارکردگی پر بھی سوال اٹھیں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر ان کا دفتر صحیح کام کرے گا تو محکمے اور ادارے بھی کارکردگی بہتر بنائیں گے اور معاملات صحیح سمت میں چلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اب لوگوں کا پیسہ لوگوں پر خرچ ہوگا اور منصوبے زمین پر نظر آئیں گے، محنت اورخلوص ہو تو مسائل ضرور حل ہوں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم سے بجلی اور زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی کے حوالے سے بات کی ہے کیونکہ خطیر سبسڈی دینے کے باوجود زرعی صارفین کو بجلی نہیں مل رہی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے وفد کی جانب سے تعلیم، صحت، آبنوشی، بجلی کے حوالے سے پیش کئے گئے مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی۔