|

وقتِ اشاعت :   October 24 – 2018

عمران خان نے وزیر اعظم کا عالی شان منصب حاصل کرنے لیے22 سال تک جدوجہد کی مگر انھیں یہ ادراک نہ ہوا کہ یہ منصب پھولوں کی سیج نہیں ہو گی۔پاکستان کے معاملہ میں ان پھولوں میں کلیوں سے زیادہ کانٹے ہوتے ہیں۔ 

ان کا واحد نعرہ حکمرانوں کی بد عنوانی کے خلاف تھا اور وہ کہتے رہے کہ اگر وہ منتخب ہو گئے تو لٹیروں سے وہ رقم واپس لیں گے جو انھوں نے نقدی اور اثاثوں کی صورت میں بیرون ملک رکھی ہوئی ہے۔مجھے2002 کے انتخابات سے قبل کراچی کے پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں ان کے ساتھ بالمشافہ ملاقات یاد ہے ،جہاں ایک ممتاز بینکار نے انھیں چند دوستوں کے ساتھ گپ شپ کے لیے دعوت دی تھی۔وہ صدر،جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ظہرانے پر اپنی ملاقات کے حوالے سے بہت خوش تھے اور زیادہ تر وہ اسی کا ذکرکرتے رہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ ایک خصوصی ملاقات تھی جس کے لیے جنرل مشرف نے انھیں اُس وقت ان کی اہلیہ جمائما گولڈ اسمتھ کے ساتھ مدعو کیا تھا اور ظہرانے میں جنرل مشرف کی بیگم بھی شریک تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ مشرف نے ان کی سوچ کی تعریف کی اور کہا کہ ” آپ (خان) اور میں مل کر کام کر سکتے ہیں” ۔مگر مشرف نے بالکل یہی بات چوہدری شجاعت سے بھی کی تھی ۔

چوہدریوں کے برعکس عمران میں الیکٹ ایبلز کو اپنی طرف راغب کرنے کی استعداد نہیں تھی۔یوں لگتا ہے کہ شاید عمران خان نے یہ سوچ رکھا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت بنانے کے لیے انھیں مطلوبہ نشستیں دلوا دے گی۔تاہم ان کی پارٹی مشرف کی حمایت سے صرف ایک سیٹ ہی جیت سکی۔

اس بات پر مایوس ہونے کے بعد کہ مشرف نے پولیٹکل انجنےئرنگ کے ذریعے انھیں وزیر اعظم نہیں بنایا،وہ مشرف کے خلاف ہو گئے۔ورنہ وہ اس امر کو خاطر میں نہ لاتے کہ وہ فوجی آمریت کا حصہ دار بننے جا رہے ہیں۔بہرحال،اس بارپولیٹیکل انجنےئرنگ نے کام دکھایا اور انھیں و زیر اعظم بنا دیا گیا۔

عمران خان کے بارے میں فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ نیک نیت ہیں مگر جیسا کہ میں نے چند سال قبل کہا تھا کہ سیاسی اعتبار سے وہ بہت بھولے ہیں اور حکومتی نظم و نسق کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتے۔مثال کے طور پر ان کا خیال ہے کہ چندے سے دو ڈیم بنائے جا سکتے ہیں اوریہ کہ نام نہاد لوٹی ہوئی دولت بیرون ملک سے واپس لا کر معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔

وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ پاکستان کو چلانا شوکت خانم ہسپتال کا انتظام چلانے کی طرح نہیں ہے۔یہ بات حلف اٹھانے کے بعد ان تقریروں سے عیاں ہے جو انھوں نے قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کیں۔انھوں نے اور ان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے بلند بانگ دعوے کیے کہ وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) سے قرض نہیں لیں گے مگر چند ہی ہفتوں میں انھیں احساس ہو گیا کہ معیشت کا پہیہ چلائے رکھنے کے لیے ملک کو نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ کسی بھی قسم کے دوسرے دستیاب ذرائع سے قرض لینا پڑے گا۔

وہ ملک کو معاشی تباہی کے کنارے پر پہنچانے کا الزام نواز شریف اور زرداری کی حکومتوں پر عائد کر سکتے ہیں اور یہ جواز دے سکتے ہیں کہ ا ن کے پاس دوسرا کوئی چارہ کار نہیں ہے مگر اس الزام کا کچھ حصہ انھیں اور ان قوتوں کو بھی قبول کرنا ہو گا جنھوں نے شروع سے ہی نواز حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں ان کا ساتھ دیا ۔

آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہو رہی ہیں۔یہ لوگ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ معیشت کو مستحکم کرنے اور اسے پائیدار سطح تک لانے کے لیے پاکستان کو ڈالر کے مقابلے میں اپنی کرنسی کی قدر کم کرنا ہو گی،تیل اور گیس پر زر اعانت کو ختم کرنا ہو گا اورکھپت کو قابو میں رکھنے کے لیے شرح سود کو بڑھانا ہو گا۔

اس کے ساتھ ہی وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان محصولات سے اپنی آمدنی کو دوگنا کرے۔آئی ایم ایف کے اپنے تخمینوں کے مطابق اس قسم کے اقدامات 14-15% افراط زر کی راہ ہموار کرنے کا باعث بنیں گے۔ضروری اشیا کی قیمتیں بڑھنے سے نیا پاکستان کی چمک پہلے ہی ماند پڑ رہی ہے۔عام آدمی اس مہنگائی کا ذمہ دار نئی حکومت کا سمجھتا ہے جسے آئے ہوئے بمشکل دو ماہ ہوئے ہیں۔

لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ حکومت یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی شرائط کے نتیجہ میں نہیں کر رہی ،نئی حکومت نے پہلے ہی کرنسی کی قدر میں کمی کر دی ہے اور تیل و گیس کے نرخ بڑھا دیئے ہیں۔تاہم ان سخت اقدامات کے کچھ اچھے ضمنی اثرات بھی ہیں۔کرنسی کی قدر میں کمی برآمدات کے لئے موافق ہے ،جو پچھلے چند سالوں میں زوال پذیر تھیں۔
حکومت ملکی درآمدات پر کسٹم ڈیوٹی سے آمدنی بڑھا سکتی ہے کیونکہ یہ ڈیوٹی تناسب کی بنیاد پر عائد کی جاتی ہے۔اسی طرح سے پیٹرولیم کی قیمتوں اور بجلی و گیس کے چارجز میں اضافہ سے محاصل مزید بڑھانے میں مدد ملے گی کیونکہ ان قیمتوں میں ٹیکسوں کا بھاری بوجھ شامل ہے۔

پی ٹی آئی حکومت گردشی قرضے کے بوجھ سے کراہ رہی ہے جو ایک ٹریلین روپے سے زیادہ ہو چکا ہے۔یہ مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک کہ بعض بنیادی نوعیت کی اصلاحات نہیں کی جاتیں جن میں تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کی نجکاری اولین اہمیت رکھتی ہے۔پاور سیکٹر کی مرکزیت کو اس طرح ختم کیا گیا کہ DISCOs ، بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں اور این ٹی ڈی سی کو ایک ساتھ الگ کیا گیا۔یہ کام ان کمپنیوں کو پرائیویٹائز کرنے کے لیے کیا گیا تھا تاکہ یہ بجلی کی ترسیل و تقسیم میں30-40% ریونیو کے نقصان کی بجائے منافع کمانے والے کاروبار کے طور پر چلائی جائیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ،جو اب نجکاری کی مخالفت کرتی ہے ، وہ جماعت ہے جس نے بے نظیر بھٹو کی رہنمائی میں بجلی پیدا اور تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی نجکاری شروع کی تھی۔کوٹ ادو، جو بجلی پیدا کرنے والی واپڈا کی ایک بڑی کمپنی تھی،خود واپڈا کی طرف سے مزاحمت کے باوجود پرائیویٹائز کی گئی۔بے نظیر بھٹو ہی کے دور میں فیصل آباد ایریا الیکٹریسٹی بورڈ کی نجکاری کی تیاری کے لیے بھی کام شروع کیا گیا تھا۔

وہ پہلی وزیر اعظم تھیں جنھوں نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کے شےئرز کو پرائیویٹائز کیا۔وہ پرائیویٹائزیشن کے تھیچر ماڈل سے متاثر تھیں ،جس میں پی ٹی سی ایل جیسے سرکاری شعبے کے اداروں کے شےئرز رعائتی نرخ پر لوگوں کو پیش کیے گئے۔اس آئیڈیا کا مقصد نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں بلکہ متوسط طبقہ کے عام سرمایہ کاروں کو بھی پی ٹی سی ایل کے شےئرز میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینا تھا۔

منافع کو پھیلانے کے لیے 500 یا اس سے کم شےئرز کے خریداروں کی درخواستوں کو ترجیح دی گئی۔پی ٹی آئی کی حکومت کو 90 کی دہائی میں بے نظیر حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات سے سبق سیکھنا چاہیئے اور نقصان کا باعث بننے والی تقسیم کارکمپنیوں کونجکاری کے لیے سب سے اوپر رکھنا چاہیئے۔جب تک یہ کام نہیں کیا جاتا ہم ان کمپنیوں کے پاور لاسز کو کم نہیں کر سکتے اور نہ ان کے ادائیگی کے نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

ان کا گردشی قرضہ بڑھتا رہے گا اور صارفین کوجو اپنا بل ادا کرتے ہیں DISCOs کے بھاری نقصانات کی قیمت برداشت کرنی پڑے گی۔اس کا اطلاق دو گیس ڈسٹری بیوشن کمپنیوں پر بھی ہوتا ہے جو گیس کی تقسیم سے ہونے والے نقصان پر قابو پانے کے قابل نہیں ہو سکیں۔

اس کے نتیجہ میں یہ دونوں کمپنیاں ہمیشہ اوگرا سے رجوع کرتی ہیں اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی دلیل دیتی ہیں۔یہاں بھی صارفین کو زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔بدقسمتی سے پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ٹیکس ادا کرنے والے ایک ایسے شکنجے میں ہیں کہ انھیں عاقبت نا اندیش لوگوں کی چوری بھی چکانی پڑتی ہے۔عوام امید کرتے ہیں کہ نیا پاکستان میں اس نا انصافی کا کسی حد تک ازالہ کیا جائے گا۔مگر اس کے لیے غیر مقبول اسٹرکچرل اصلاحات نافذ کرنی ہوں گی۔