اسلام آباد: سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے آئی این جی اوز کی درخواستوں کو مسترد کرنے کا اختیار کابینہ کی منظوری سے مشروط کرنے کی سفارش کرنے کی سفارش کردی،کمیٹی نے وزارت داخلہ کو کام سے روکے جانے والے آئی این جی اوز کو وجوہات سے آگاہ کرنے سے کرنے سے کی بھی ہدایت کردی ہے۔
پیر کو سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی، سینیٹر کشو بائی اور سینیٹر ثناء جمالی نے شرکت کی۔
کمیٹی میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ ایک جمہوری ملک میں لوگوں کو جبری گمشدگی یا لاپتہ نہیں کر سکتے، آئین کے مطابق کسی بھی شخص کو چوبیس گھنٹے کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازمی ہوتا ہے،کمیٹی ملک بھر میں حراستی مراکز کا دورہ کرے گی،گمشدہ لوگوں کو بھی اغواء کے زمرے میں لیا جاتا ہے۔
اس کیلئے الگ قانون ہونا چاہیے،پانچ سالوں میں ہماری حکومت نے بھی جبری گمشدگی بارے بین کنونشن سائن کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا،موجودہ حکومت جب تک بین الاقوامی ٹریٹی سائن کرنے تک کوئی نہ کوئی حل نکالیں۔
سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ جن این جی اوز کو ملک میں کام کرنے سے روکا ہے کیاان کو وجوہات سے آگاہ کیا ہے؟وزارت داخلہ کس قانون کے تحت آئی این جی اوز کو ریگولیٹ کرتی ہے؟ این جی اوز بارے پالیسی کو کابینہ سے منظور نہیں کروایا گیا ،پالیسی میں انسانی حقوق وزارت کے کردار کو ختم کیا، وزارت داخلہ پالیسی کو کابینہ میں منظوری کیلئے پیش کریں۔
سابقہ پالیسی کو قانونی پراسس کو مکمل کیے بغیر نافذکیا ہے،نئی ڈرافٹ پر تمام متعلقہ وزارتوں اور اداروں،سٹیک ہولڈرسے مشاورت کی جائے، کمیٹی کی سفارشات سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو بھی فراہم کیا جائے،اس معاملے پر الگ سے خصوصی اجلاس بلایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس محدود وسائل ہیں، این جی اوز معاشی و معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بلوچستان میں این جی اوز کو کام کرنے سے روکنے سے وہاں احساس محروم مزید بڑھیں گی۔سینیٹر جہانزیب جمالدینی کا کہنا تھا کہ ایسے لوگ بھی لاپتہ ہے کہ منگیتر کئی سالوں سے غائب ہیں، کئی لاپتہ افراد وڈیروں، جاگیرداروں کے نجی جیلوں میں ہیں۔
سیکرٹری داخلہ نے کمیٹی کو بتایا کہ لاپتہ افراد سے متعلق معاملہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس جا چکے ہیں، وفاق اب اس ضمن میں ترمیم کرتی ہے تو اس کا اطلاق اسلام آباد،کشمیراور جی بی تک ہوگا،آئی این جی اوز بارے دوہزار پندرہ میں نئی پالیسی بنی، سیو دی چلڈرن سمیت کچھ آئی این جی اوز اپنی مینڈیٹ سے تجاوز اور اس کے برعکس کام کررہے تھے، پالیسی کے تحت ان تنظیموں کو سوشیو اکنامک سیکٹر میں کام کرنے کی اجازت دی گئی۔
ان این جی اوز کو ممنوعہ ایریاز میں کام سے روکا گیا، پالیسی کے مطابق چوہتر تنظیموں کو کام کی اجازت ملی ہے، ستائیس کو کام کی اجازت نہ ملی اور دو ماہ تک آپریشن بند کرنے کا کہا تھا، اٹھارہ تنظیموں نے اپیل کی جبکہ نو نے دوبارہ اپلائی ہی نہیں کیا، ان تنظیموں میں سے دو تنظیم کورٹ میں گئے ہیں، جن تنظیموں کو کام سے روکا ہے ان کو سکیورٹی کی وجوہات پر روکا ہے، پاکستان میں کسی غیر سرکاری تنظیم پر پابندی نہیں ہے۔
لیکن این جی اوز کو ہماری پالیسی کے مطابق کام کرنا ہوگا، زیادہ تر این جی اوز یو ایس اور یوکے سے ہیں، یہ ادارے سکیورٹی کنسرن ایریاز میں جاتے ہیں اور وہاں میپنگ کرتے ہیں۔
مختلف آئی این جی اوز اور این جی اوز کے نمائندوں نے کہا کہ ہم نے وزارت داخلہ کی جانب سے طلب کرنے دستاویزات فراہم کی، ہمیں وجوہات کے بارے میں نہیں بتایا گیا، سپریم کورٹ نے بھی ہماری تعریف کی ہے،سپریم کورٹ میں وزارت داخلہ کے حکام چیف جسٹس کو چیمبر میں بریفینگ دینے پر اصرار کرتے ہیں، ہم قانون کا احترام کرتے ہیں اور آئین اور قانون پر عمل کرنا ہمارا اولین مقصد ہوتا ہے۔
کمیٹی نے لاپتہ افراد کو رکھے جانے والے حراستی مراکز سے متعلق رپورٹ طلب کر لی۔کمیٹی نے وزارت داخلہ کو کام سے روکے جانے والے آئی این جی اوز کو وجوہات سے آگاہ کرنے اور پالیسی کی کابینہ سے منظوری لینے کی سفارش کردی۔
ایک جمہوری ملک میں لوگوں کو جبری لاپتہ نہیں کیا جاسکتا ، سینٹ قائمہ کمیٹی
وقتِ اشاعت : November 6 – 2018