|

وقتِ اشاعت :   November 27 – 2018

کوئٹہ:  بلوچستان نیشنل پارٹی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی رہنماؤں نے کہا ہے کہ بلوچستان کے نوجوان اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھنے کیلئے حصول علم پر توجہ دیں ،کتب دوستی کو فروغ دیکر ہی ہم بلوچ سرزمین کا دفاع کرسکتے ہیں ۔

بلوچستان میں مختلف منصب اور سیاسی جماعتوں میں موجود لوگ بی ایس او کی پیداوار ہیں ۔ بلوچ قومی اجتماعی مفادات کی جدوجہد بلوچ عوام سے اتحادواتفاق برقرار رکھنے کا تقاضا کررہی ہے ۔

گزشتہ روز کوئٹہ پریس کلب میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے 51 ویں یوم تاسیس بنام بلوچ سیاسی اسیران اور بیاد شہداء بلوچستان کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری میر نذیر بلوچ، بی ایس او کے چیئرمین نذیر بلوچ ، بی این پی کے مرکزی لیبر سیکرٹری منظور بلوچ، واحد بلوچ، منیر جالب بلوچ، غلام نبی مری ودیگر کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بی ایس او ایک عظم سوچ ،فکر ، فلسفہ کا نام ہے جس کا مقصد بلوچ قوم میں اتحاد واتفاق اور یکجہتی کو فروغ دینا ہے ۔ 

بلوچستا ن کی 51 سالہ تاریخ میں بے پناہ مشکلات ، اور پریشانیوں کے باجود بی ایس او کی قیادت نے عملی جدوجہد کرکے تاریخ رقم کی ہے ۔ بی ایس او کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجہ میں آج بلوچستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کی قیات اور مختلف منصب پر بیٹھے لوگ بی ایس او کی پیداوار ہیں ۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بی این پی کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری نذیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کی سرزمین ہماری ماں ہے اور اس کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے بلوچ سرزمین کی حفاظت محض تقریروں سے نہیں کی جاسکتی اس کیلئے بلوچ قوم کو آپس میں اتحاد واتفاق پیدا کرتے ہوئے عملی جدوجہد کا حصہ بننا چائیے ۔ 

بی ایس او سے منسلک نوجوان تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم اپنے بلوچ بھائیوں کے ہاتھ مضبوط کریں ۔ بلوچ قوم کے باعلم باشعورقوم بننے کی دیر ہے کامیابی ہمارا مقدر بنے گی ۔ نذیر بلوچ کا کہنا تھاکہ ہم طاقت ور ہیں یا کمزور بندوق سے نہیں لڑسکتے ہمیں اپنی سرزمین کا دفاع کرنے کیلئے قلم کو اپنا ہتھیار بنانا ہوگا ۔

بلوچ قوم کے نوجوانوں کو کالج ، یونیورسٹی سمیت دیگر تعلیمی اداروں میں علم وآگاہی اور شعور فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے نوجوان علمی طور پر آگے بڑھتے ہوئے ایک زندہ قوم کی پہنچان برقرار رکھ سکیں ۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین نذیر بلوچ کا یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ قومی قربانیاں دینے سے نہیں لا علمی میں زندگی گزارنے سے ختم ہوتی ہیں ہمیں اپنی قومی جدوجہد کو تقویب بخشنے کیلئے کتاب کا سہارا لینے کی ضرورت ہے ۔ 

علم سے دور ہونے کی وجہ سے بلوچستان کو موجودہ صورتحال کا سامنا ہے ۔قومی اور اجتماعی مسائل پر سیاسی جماعتوں اور طلباء تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ تعلیم ، لائبریری ، اسٹڈی سرکل کو آباد کرنے سے ہماری مشکلات ختم ہونگی ۔ اکسویں صدی میں ہمیں ترقی یافتہ قوموں کی برابری کیلئے قومی شعور اور مسائل کے حل اوراپنی بقاء یقینی بنانے کیلئے سوشل میڈیا کا سہارا لینا چائیے ۔ 

ان کا کہنا تھاکہ بلوچستان کے قومی وسائل و ساحل بلوچ قوم اور بلوچستانی عوام کی حق ملکیت سمیت دیگر میگا پراجیکٹس میں بلوچستان کی حقیقی قوتوں کو نظر انداز کرنے عدم شرکت کسی بھی طبقے کے مفاد میں نہیں اور نہ ہی بلوچ قوم کو اپنی سرزمین کسی غیر جمہوری عمل کے ذریعے دستبردار کرنے کی سازشیں کامیاب ہونگی ۔

موجودہ صدی علم اور ہنر کی صدی ہے یہاں ہمیں دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا آج اس جدید صدی میں بی ایس او 51 ویں یوم تاسیس کے سلسلے میں بلوچ قوم کی نمائندہ تنظیم کی حیثیت سے نوجوانوں کو کسی صورت غیر اخلاقی اقدمات غیر ضروری انتشار کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیگی ایسے حالات میں ہم سابقہ تلخ تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے علم کی روشنی کو روشن رکھنے کے لئے ہر سطح پر علمی اقدمات کررہے ہیں۔