زراعت بلوچستان کی معیشت کا شہ رگ ہے۔ تقریباً اسی فیصد یا اس سے زائد آبادی کا انحصار زراعت اور زرعی پیداوار پر ہے۔ باقی تمام شعبے صرف بیس فیصد آبادی کی ضروریات پوری کرتے ہیں ان میں سرفہرست ماہی گیری ‘ گلہ بانی اور معدنیات ہیں ، بہر حال بلوچستان کی ترقی اور لوگوں کے خوشحالی کا تعلق زراعت کی ترقی پر ہے۔ یہ سب سے امید افزاء بات ہے کہ زراعت کے شعبے میں زیادہ قابل اور تعلیم یافتہ ریسرچ اسکالرز ہیں ۔
جو بلوچستان کے لئے امید کی کرن ہیں کہ وہ بلوچستان کو غذائی معاملات میں خود کفیل بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ گزشتہ ستر سالوں میں بلوچستان غذائی پیداوار میں خود کفیل نہیں ہوسکاہے۔ اس کی بنیادی وجہ سابقہ حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے جو ضروری وسائل فراہم نہیں کرسکے۔ دوسری وجہ بلوچستان میں پانی کی قلت خصوصاً آبپاشی کا ہے، بلوچستان میں تقریباً دو کروڑ ایکڑ زرخیز زمین کاشت کاری کے لئے موجود ہے لیکن ان کو آباد کرنے کے لئے پانی نہیں ہے ۔
1991ء میں صوبوں کے درمیان نہری پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہوا تھا جس کے ذریعے بلوچستان کو دریائے سندھ کے سیلابی پانی سے مزید ساٹھ ہزار کیوسک پانی ملنا تھا۔ آج دن تک یہ پانی نہیں مل سکا۔ اس اضافی پانی کا استعمال سندھ اور پنجاب میں ہورہا ہے کیونکہ اس کو استعمال میں لانے کیلئے بنیادی ڈھانچہ گزشتہ وفاقی حکومتوں نے تعمیر ہی نہیں ہونے دیا ، ان کے لئے ضروری وسائل مہیا نہیں کیے۔
ایسے میں صوبائی حکومت کو مزید کسی تساہل کا مظاہرہ نہیں کرنا چائیے ، یہ ضروری ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں تمام دریاؤں پر ڈیم تعمیر کیے جائیں۔ یہ چھوٹے اور میڈیم سائز کے ڈیم ہوں، چیک ڈیم نہ ہوں کیونکہ دنیا بھر میں چیک ڈیم کا نظام مکمل ناکام ہوچکا ہے۔
چیک ڈیم سے زراعت کی ترقی نا ممکن ہے اس لئے صوبہ سینکڑوں کی تعداد میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے ڈیم بنائے جس سے زیادہ سے زیادہ زمین آباد کیا جاسکتاہے۔ سندھ سے زیادہ بلوچستان سے سیلابی پانی بحرہ عرب میں گرتا ہے۔ 60لاکھ ایکڑفٹ سے زیادہ پانی سمندر میں گرتا ہے اگر ہم اس کا ایک حصہ بھی زراعت اور دوسری ضروریات کے لئے استعمال میں لائیں تو بلوچستان میں یہ انقلاب سے کم نہ ہوگا۔
بلوچستان نہ صرف غذائی اجناس کی پیداوار میں خود کفیل ہوگا بلکہ یہ خطے کیلئے غذائی اجناس اور فروٹ باسکٹ بن سکتا ہے اور پورے خطے کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ زراعت کی ترقی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ صوبائی حکومت کو چاہئے کہ وہ ملکی اور بین الاقوامی امداد حاصل کرے اور بلوچستان کو غذائی اجناس کے پیداوار میں خود کفیل بنائے۔
گزشتہ حکومتوں کے دوران زراعت کے شعبہ کی ترقی کیلئے بلند وبانگ دعوے کئے گئے مگر اس بنیادی مسئلہ پر توجہ نہیں دی گئی کہ کس طرح سے زراعت کے شعبے میں بہتری لائی جاسکتی ہے خاص کر پانی کے مسئلے کو سرے سے نظرانداز کیاگیا،نہ توچھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے منصوبے بنائے گئے اور نہ ہی کسی طرح کی پلاننگ کی گئی۔
بلوچستان کی معیشت کا اہم دارومدار زراعت پر ہے بدقسمتی سے ہمارے یہاں حکومتوں کی ترجیحات میں یہ شامل ہی نہیں رہی ۔اگر پنجاب اور دیگر صوبوں کو دیکھاجائے تو ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جس شعبہ سے زیادہ فائدہ اور ترقی مل رہا ہے تو اسی پر نہ صرف سرمایہ کاری کی جاتی ہے بلکہ لانگ ٹرم منصوبہ بندی کی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں خواب زیادہ دکھائے جاتے ہیں اور کام نہیں کیا جاتا، جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
موجودہ صوبائی حکومت زراعت کو ترجیح دیتے ہوئے خاص کر چھوٹے اور میڈیم سائز ڈیموں کی تعمیر پر توجہ مرکوز کرے اوربلوچستان کے حصہ کا پورا پانی بھی حاصل کرے تاکہ اسے زراعت کی ترقی کے استعمال کیا جاسکے تو یقیناًبلوچستان غذائی اجناس اور فروٹ باسکٹ کے ذریعے معاشی تبدیلی کا بڑا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
بلوچستان میں چھوٹے ڈیموں کی ضرورت
وقتِ اشاعت : December 7 – 2018