|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2018

کوئٹہ : بلوچستان میں سکول اور کالج اساتذہ کی پانچ تنظیموں اور آل پاکستان کلرکس ایسوس ایشن کے دونوں دھڑوں نے بلوچستان ایجوکیشنل ایمپلائز ایکشن کمیٹی قائم کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے حالیہ فیصلے کے خلاف ہر سطح پر آئینی و جمہوری احتجاج کا اعلان کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ محکمہ تعلیم کو لازمی سروس قرار دینے کی آڑ میں محکمہ تعلیم کے افسران و اہلکاران سے ان کاجمہوری حق چھیننے کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

ایکشن کمیٹی میں جی ٹی اے ، بی پی ایل اے ، سیسا ، سیسا حقیقی ،ایپکا اور وطن ٹیچرز ایسوسی ایشن شامل ، پروفیسر آغا زاہد ایکشن کمیٹی کے چیئر مین ، حبیب الرحمان مردانزئی وائس چیئرمین ، قاسم کاکڑ سیکرٹری مقرر۔

ایکشن کمیٹی کا اگلا اجلاس آج منعقد ہوگا۔بدھ کے روزبی پی ایل اے آفس ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ میں تعلیمی اداروں سے وابستہ تنظیموں کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جس میں بلوچستان پروفیسر ز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن ، گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن ، سینئر ایجوکیشنل سٹاف ایسوسی ایشن ( سیسا) ، سینئر ایجوکیشنل سٹاف ( حقیقی ) ، وطن ٹیچرز ایسوسی ایشن اور آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن کی دونوں تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی ۔

اجلاس میں صوبائی حکومت کی جانب سے تعلیمی شعبے سے متعلق حالیہ اقدام کے مختلف پہلوؤں پر غور کیا گیا اور تمام تنظیموں نے اس بات پر گہری تشویش کااظہار کیا کہ گزشتہ روز صوبائی کابینہ کے اجلاس میں محکمہ تعلیم کو لازمی سروس قرار دینے کے بل 2018ء کی منظوری دی جسے اب اسمبلی سے منظور کرانے کے بعد ایکٹ کی صورت میں نافذ کیا جائے گا ۔ 

شرکاء تنظیموں کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ محکمہ تعلیم کو لازمی سروس قرار دینے کی آڑ میں دراصل حکومت اساتذہ اور محکمہ تعلیم کے افسران و اہلکاران سے ان کا جمہوری حق چھیننا چاہتی ہے ہم اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور ہر سطح پر پرامن جمہوری احتجاج کیا جائے گا اور عدالت سے بھی رجوع کیا جائے گا ۔

کیونکہ یہ ایکٹ بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے ، آئین ہر شہری کو اظہار رائے اور احتجاج کا حق دیتا ہے تعلیم لازمی سروس نہیں بلکہ سوشل سروس کے زمرے میں آتی ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اساتذہ احتجاج کرتے ہیں مگر چونکہ وہاں اساتذہ کے معاشی اور سماجی حقوق کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔

اس لئے اساتذہ کے احتجاج کی نوبت بہت کم آتی ہے ۔ اجلاس کے شرکاء کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ میر جام کمال کی قیادت میں موجودہ مخلوط صوبائی حکومت سے ہماری بہت امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ تعلیم کے شعبے سے متعلق ماضی کے غلط تجربات نہ دہراتے ہوئے اصل سٹیک ہولڈرز کے ذریعے مسائل حل کرائے گی مگر ہمیں یہ دیکھ کر انتہائی افسوس ہوا ہے کہ اس حکومت کو بھی غلط تجربات میں الجھانے کی سازش ہورہی ہے ۔

صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں اس مسودہ قانون کو لانے سے قبل حکومت اسے واپس لینے کا اعلان کرے سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ آئین و قانون سے متصادم مسودہ قانون کی کھل کر مخالفت کریں ۔ 

اجلاس میں طویل مشاورت کے بعد بلوچستان ایجوکیشن ایمپلائز ایکشن کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا اور باہمی مشاورت سے اس کی کابینہ بھی تشکیل دے دی گئی جس کے مطابق کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر آغا زاہد ،وائس چیئر مین حاجی حبیب الرحمان مردانزئی ،سیکرٹری حاجی قاسم خان کاکڑ ،ڈپٹی سیکرٹری محمد یونس کاکڑ ،جوائنٹ سیکرٹری محمد خان نوشیروانی ،فنانس سیکرٹری عبدالہادی اچکزئی اور پریس سیکرٹری در محمد لانگو ہوں گے جبکہ دیگر ممبران میں پروفیسر نذیر لہڑی ( بی پی ایل اے)، حاجی عبدالحمید لانگو (سیسا )،محمد نواز جتک (جی ٹی اے)،محمد یونس کاکڑ (جی ٹی اے)، نثار مری ( ایپکا)،غلام مصطفی ( وطن ٹیچرز)، عامر شاہ (سیسا حقیقی )اور جمیل آغا( ایپکا) شامل ہوں گے۔

دریں اثناء ایکشن کمیٹی کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق کمیٹی کا پہلا باضابطہ اجلاس آج ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ میں طلب کیا گیا ہے جس میں آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا جائے گا۔