|

وقتِ اشاعت :   December 15 – 2018

گزشتہ شب شال (کوئٹہ) سٹی سے معروف نیورو سرجن ابراہیم خلیل اغوا ہوئے۔ اغوا کار کون تھے مغوی کو کہاں لے گئے نہیں معلوم۔ اغوا کی اطلاع ملتے ہی انتظامیہ حرکت میں آگئی ۔رات گئے چیکنگ کے نام پہ جگہ جگہ ناکے لگائے گئے۔ٹی وی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے سبب اُس وقت پتہ نہیں چلا کہ اچانک ہوا کیا ہے۔ صبح جب دو کالمی خبر پہ نظر پڑی تو پورا منظر نامہ سمجھ میں آ ہی گیا کہ رات کو ہوا کیا تھا۔ 

ایک سوال ذہن میں ابھر آیا کہ آخر شال کو ہوا کیا ہے یہ شہر ایسا تو کبھی نہیں تھا۔ اس وادی نے ایسے حالات کو کبھی جنما ہی نہیں تھا اور نہ ہی گود لینے کا سوچا تھا یہاں کے باسی کبھی ایسے تو نہیں تھے۔ سب کچھ عیاں تھا۔ امن، محبت، بھائی چارگی کی فضا قائم تھی۔ لوگ در و دیوار سے باہر بھی محفوظ تھے۔ ڈر اور خوف کا دور دور تک نام و نشان ہی نہیں تھا۔ مباحثے و مکالمے ہوتے تھے۔ آناً فاناً سب کچھ تبدیل کیسے ہوا۔ 

کچے پکے مکانوں میں رہ کرلوگ خوشحال تھے مکانوں کی جگہ بڑے بڑے پلازوں نے لے لی۔ پیسے کی ریل پیل ہوگئی۔ کاروبار کے نام پہ بڑے بڑے تعلیمی مراکز بن گئے۔ صحت کی سہولیات اور جدید مشینوں کا استعمال عمل میں آنے لگا۔ دو نمبر دوائیوں کا کاروبار اور نہ جانے کیا کیا نہیں ہونے لگا۔وادی نے شہر کا طرز اختیار کیا پھر سلسلہ شروع ہوا بڑھتی ہوئی آبادی کا۔ 

ایک عام آدمی کچلاک کی جانب جاتے ہوئے خوف زدہ ہو جاتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا کچھ ہونے والا ہوگا۔ وہ لوگ جو کل لوکل بسوں میں سفر کرکے اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے تھے آج ذاتی گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے غیر محفوظ کیسے ہوگئے۔ خوف کا عالم ان کے وجود کے اندر ایسے پنہاں ہے کہ وہ اس سے باہر نکل نہیں پاتے۔یہ شہر کبھی ایسا نہیں تھا لوگ پوچھتے ہیں کہ پھر کیسا تھا۔ ایک محفل میں گئے دنوں کا ذکر چڑ گیا تو نام شال کا آیا۔ 

محفل میں بیٹھے ایک دوست نے لمبی آہ بھری اور کہا کہ کوئٹہ تو کبھی ایسا نہیں تھا۔ کوئٹہ کے فٹ پاتوں کی مثال دیتے ہوئے اس کا کہنا تھا فٹ پاتھ علمی، ادبی، سیاسی درسگاہوں کا مرکز ہوا کرتا تھا محفلیں لگتی تھیں بیوروکریٹس کی الگ محفلیں لگتی تھیں، سیاستدانوں کی الگ ، صحافیوں کی الگ تو مزدوروں کی الگ۔ یہ محفلیں رات گئے تک جاری رہتیں۔ مختلف موضوعات زیرِ بحث آتے ۔

نہ کوئی بڑا اور نہ کوئی چھوٹا ہر ایک محفل کا حصہ بن جاتا۔ مخصوص ہوٹل علمی، ادبی، سیاسی، صحافتی مجالس کا مراکز ہوا کرتے تھے۔ وہ دوست ایک ہوٹل کی کہانی سنا رہے تھے کہ گئے زمانے میں شال میں ایک ہوٹل ایسا بھی ہوا کرتا تھا کہ جہاں چائے کے ساتھ ساتھ فرمائشی گانے لگا کرتے تھے۔ 

فرمائشی گانوں کے لیے ہوٹل مالک کے پاس کیسٹوں کا خزانہ تھا۔ گاہک چائے کی چسکی لے کر اس وقت تک ہوٹل کا دامن نہیں چھوڑتے تھے جب تک ان کی فرمائشی گانے کا اعلان نہ ہوتا۔۔’’ یہ گانا فلانے بندے کے فرمائش پہ سنائی جا رہی ہے‘‘۔ 

اب نہ وہ ہوٹلیں رہیں نہ فٹ پاتھ رہے اور نہ ہی محفلوں نے اپنا حسن برقرار رکھا اب ہر چیز گمشدہ سا ہو کر رہ گیا ہے۔ اب کہانیاں فقط یاداشتوں میں محفوظ ہو کر رہ گئی ہیں۔ جب تک کہانی کاروں کے حافظے کام کرتا رہے تو ایسی کہانیاں سننے کو ملتی رہیں جیسے ہی حافظے نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ تو کہانیاں بھی گمشدہ ہو کر رہ گئیں۔ اب کہانیوں نے نیا موڑ لے لیا ہے۔ کہانیوں کا پلاٹ پہلے سے تیار ہوتا ہے۔ اب تو بند کمروں اور بند گلیوں میں فقط اغوا، قتل، کاروبار کی محفلیں سجتی ہیں۔

سوچتا ہوں موجودہ نسل اگلی نسل کو کونسی کہانیاں سنائے گی۔ یہی کہانیاں کہ شال کی وادی سے ڈاکٹرز اغوا ہوتے تھے دن دیہاڑے ٹیچرز، صحافی قتل ہوتے تھے۔ امن، بھائی چارگی اور محبت گمشدہ شے بن کر رہ گئی تھی۔ تو اگلی نسل شال کا کونسا خاکہ اپنے ذہن میں لائے گا۔ 

کہانی کا رخ جیسا بھی ہو شال کی ماضی کہانی کی صورت میں محفوظ ہونی چاہیے جن کی یاداشت میں شال کا پرانانقشہ اور پرانی یادیں محفوظ ہیں میں ان سے بس یہی عرض کرتا ہوں کہ یاداشت لکھیں کہانیاں لکھیں۔ اگلی نسل نہ صحیح موجودہ نسل شال کی حقیقی روح سے باخبر ہوجائے۔ شال کی روح اِس وقت متزلزل ہے۔ 

شال ایک نرغے میں آچکا ہے۔ اب فقط بولیاں لگائی جاتی ہیں۔ بولیوں میں انسانی زندگی کی بولیاں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ ادبی، سیاسی، سماجی، صحافتی محفلوں کا نہ ہونا اور گھناؤنے جرائم کا سر اٹھانا شال کو افسردہ ہی کر دیتی ہیں۔ مگر شال کا نوحہ کون لکھے اس کا درد کون سمجھے۔ 

دل سے بس یہی دعا نکلتی ہے کہ دسمبر والی شام شال اوڑھ کر جب باہر نکلا کرے تو خوف کے بجائے اطمینان محسوس کرے تو شال اسی روز اپنے آپ کو ہلکا محسوس کرے۔ ہوٹل آباد رہیں محفلیں جمتی رہیں نہ جانے ایسا ہو کہ نہ ہو لیکن جو کہانی تخلیق کی گئی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں برف باری بھی شال کا دامن چھوڑ دے گی۔ پھر بھلا شال کو کون یاد کرے کون ان محفلوں کو آباد کرے۔