|

وقتِ اشاعت :   December 28 – 2018

کوئٹہ:  بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں کوئٹہ شہر میں پانی کے بحران کی بازگشت ۔ محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کی فراہم کردہ فہرست پر رکن اسمبلی نے عدم اطمینان کا اظہار کیا، وزیراعظم اسکالر شپ پروگرام کے تحت طلباء کے فیسوں کی عدم ادائیگی سے متعلق تحریک التواء بحث آئندہ اجلاس میں بحث کیلئے منظور۔ 

گزشتہ روز ڈپٹی ا سپیکر بلوچستان اسمبلی سردار بابرموسیٰ خیل کی زیر صدارت ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہونے والے اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرئے نے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کی جانب سے2013سے18کے دوران شروع کئے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کی ۔

تفصیلات کے حوالے سے فراہم کی گئی محکمانہ فہرست پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ محکمے کی جانب سے ایوان کو اندھیرے میں رکھا جارہا ہے فراہم کی گئی فہرست میں دو ارب روپے کے منصوبوں کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے فراہم کی گئی ۔

تفصیلات سے میرا استحقاق مجروح ہوا ہے لہٰذا محکمے کی سرزنش کرتے ہوئے ایوان کو غلط جواب دینے کے عمل کی تحقیقات کرائی جائیں جس پر مشیر تعلیم محمدخان لہڑی نے کہا کہ معزز رکن کو محکمے کی جانب سے فراہم کردہ فہرست دے دی گئی ہے ۔

صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے کہا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران محکمہ پی اینڈ ڈی رکن اسمبلی کی پارٹی کے پاس تھا عدالتی احکامات پر پی ایس ڈی پی پر نظر ثانی کرکے انفرادی نوعیت کے منصوبوں کو نکالا جارہا ہے جسے جلد کابینہ سے منظور کرکے اسمبلی میں پیش کردیا جائے گااگر معزز رکن کو کوئی ابہام ہے تو وہ چیمبر میںآکر ملاقات کریں ان کے تحفظات دور کردیئے جائیں گے ۔ڈیموں کی تعمیر سے متعلق نصراللہ زیرئے کے پوچھے گئے ۔

سوال کے جواب میں صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے کہا کہ صوبے میں واٹرا یمرجنسی نافذ کرکے حکومت انٹرنیشنل ڈونرز کے ساتھ رابطے میں ہے سی پیک کے تحت کوئٹہ شہر میں دو ڈیمز کی تعمیر کی تجویز زیر غور ہے تاہم پی ایس ڈی پی کی منظوری کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی ۔

جس پر جے یوآئی کے سید فضل آغا نے کہا کہ حکومت اپنا موقف واضح کرے کہ ڈیم بنانے کی تجویز زیر غور ہے یا بنائے جائیں گے جس پر صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے کہا کہ فی الحال ڈیموں کی تعمیر زیر غور ہے پی ایس ڈی پی کی کابینہ سے منظوری تک اپنی رائے نہیں دے سکتے ۔

بی این پی کے اختر حسین لانگو نے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران ہونے والی تعیناتیوں میں میرٹ سے متعلق سوال کے جواب میں صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ سابق اور نگران حکومت میں ہونے والی تعیناتیوں سے متعلق تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم کردی گئی ہے اگر کسی معزز رکن یا کسی بھی شہری کو کسی بھی محکمے سے متعلق شکایات ہیں تو وہ ثبوت فراہم کریں ہم کارروائی کریں گے ۔

اپوزیشن اراکین ملک نصیر شاہوانی اور عبدالواحد صدیقی نے بھی سابق دور حکومت میں ہونے والی تعیناتیوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ میرٹ کے برخلاف تعیناتیاں ہوئی ہیں عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کاازالہ کیا جائے ۔

صوبائی مشیر تعلیم محمد خان لہڑی نے بی این پی کے اختر حسین لانگو اور جے یوآئی کے حاجی محمد نواز کے پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں کہا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق محکمہ تعلیم میں اساتذہ کے پچاس فیصد پروموشن کوٹے پر ترقی کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔

بی این پی کے ثناء بلوچ اور جے یوآئی کے یونس عزیززہری کی عدم موجودگی پر ڈپٹی سپیکر نے ان کے سوالات اگلے اجلاس تک موخر کردیئے ۔اجلاس میں پشتونخوامیپ کے رکن نصراللہ زیرئے اور بی این پی کے اختر حسین لانگو نے اپنے توجہ دلاؤ نوٹسز پیش کرتے ہوئے کہا کہ کیایہ درست ہے کہ کیسکو کی جانب سے کوئٹہ شہر میں واسا کے واٹر سپلائی سکیمات کی بجلی کاٹ دی گئی ہے ۔

کلی شیخ حسینی ہدہ اور شہباز ٹاؤن ( خوشحال ٹیوب ویل ) میں محکمہ بی واسا کی جانب سے نصب ٹیوب ویل جنہیں ایک عرصہ گزر چکا ہے پر تاحال محکمہ واسا کی جانب سے اسٹارٹر ، وال مین اور چوکیدار کی آسامیوں پر تعیناتی عمل میں نہیں لائی گئی ۔صوبائی وزیرپی ایچ ای نور محمد دمڑ نے کہا کہ واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث کیسکو کی جانب سے ٹیوب ویلز کے منقطع کئے گئے کنکشنز کو دوبارہ بحال کردیاگیا ہے ۔

بلوچستان میں 2000کمیونٹی ٹیوب ویلز بند پڑے ہیں جبکہ محکمے کے ذمے واپڈا کے چار ارب روپے واجب الادا ہیں محکمے کو فنڈز کی فراہمی کے لئے وزیراعلیٰ کو سمری ارسال کردی گئی ہے کوئٹہ شہر میں دو سو کے قریب ٹیوب ویل گزشتہ دور حکومت میں محکمہ پی ایچ ای اور واسا کے ذریعے لگائے گئے تھے جو غیر فعال ہیں محکمے کی جانب سے ان ٹیوب ویلز سمیت بلوچستان بھر میں بند پڑے ٹیوب ویلوں کی فعالیت کے لئے ارسال کی گئی سمری وزیراعلیٰ کے میز پر موجود ہے ۔

امید ہے کہ جلد وزیراعلیٰ اس ضمن میں اقدامات کریں گے انہو ں نے کہا کہ سابق دور حکومت میں ایم پی ایز نے ٹیوب ویل لگاکر ادھورے میں چھوڑ دیئے اکثر ٹیوب ویلوں کی بجلی واپڈا نے بلوں کی عدم ادائیگی پر کاٹ دی ہے ۔

اختر حسین لانگو کے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے صوبائی وزیر نے کہا کہ کلی شیخ حسینی میں2015ء میں سابق صوبائی وزیر کے فنڈز سے ٹیوب ویل لگایا گیا تھا تاہم بعد میں اس کے لئے فنڈز جاری نہیں ہوئے جس سے ٹیوب ویل غیر فعال ہے اور ملازمین کی تعیناتی بھی نہیں ہوسکی ۔

ٹھیکیدار نے ٹیوب ویل کا کام ادھورا چھوڑ دیا ہے جس پر اختر حسین لانگو نے عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزیر موصوف کو محکمے کی جانب سے غلط بریف کیا گیا ہے یہ ٹیوب ویل2005اور2006ء میں لگائے گئے تھے ۔

تاہم معاہدے کے باوجود ٹیوب ویل کے لئے اراضی فراہم کرنے والوں کو نوکریاں نہیں ملیں اور ٹیوب ویل آج غیر فعال ہیں جس پر صوبائی وزیر نے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ آئندہ چند روز میں مشتہر ہونے والی آسامیوں میں ان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر تعینات کیا جائے گاجن کے پاس معاہدے ہیں ۔

اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے اپنی تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ 2015ء میں وزیراعظم اسکالرشپ پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کے تحت بلوچستان کے طلبہ و طالبات کو ملک کے دیگر صوبوں کے اعلیٰ سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں داخلوں کے ساتھ فیسوں کی ادائیگی کا سلسلہ شروع کیا گیا جو گزشتہ دور میں جاری رہا ۔

مگر اب ان کی فیسوں کی ادائیگی کا سلسلہ بند کردیاگیا ہے جس سے ان طلباء کا وقت ضائع ہونے کے ساتھ ان کا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ ہے لہٰذا ایوان کی کارروائی روک کر اس اہم عوامی نوعیت کے مسئلے کو زیر غور لایا جائے ۔ ایوان کی رائے سے سپیکر نے تحریک التوا ء کو باضابطہ قرار دیتے ہوئے اس پر 29دسمبر کے اجلاس میں بحث کرانے کی رولنگ دی ۔