|

وقتِ اشاعت :   January 4 – 2019

اسلام آباد : سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے مواصلات نے این ایچ حکام سے گذشتہ 8سالوں کے دوران نیشنل ہائی ویز کی مرمت اور بحالی پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات طلب کر لی ہیں کمیٹی کے اراکین نے بلوچستان میں موجود شاہراہوں کی بہتری اور موٹرویز کی تعمیر کے لئے فنڈز مختص نہ کرنے پر افسوس کا اظہار کیا۔

کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر ہدایت اللہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔11اور25 اکتوبر 2018ء کو ہونے والے کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کے علاوہ خیبرپختونخواہ کے ایمرجنٹ پروجیکٹ کی مد سے مرمت کے کام میں سے 45فیصد غیرمعیاری ہونے کے معاملے، موٹرویز اور ہائی ویز پر وزن اسٹیشن اور ٹول پلازہ کے میکنیزم کے علاوہ 2010میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے فلڈ ایمرجنسی بحالی پروگرام کے فنڈ کے استعمال کے حوالے سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے تفصیلی بریفنگ حاصل کی گئی۔ 

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق ہائی ویز اور موٹرویز پر وزن کنڈا اسٹیشن کے حوالے سے این ایچ اے کے تمام ممبران کو خط لکھ دیا گیا تھا۔ وزارت منصوبہ بندی اور ترقیات کی جانب سے 25.6ارب روپے جاری کئے گئے۔ باقی بجٹ اگلے چھ ماہ میں جاری کر دیا جائے گا۔ 

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پارلیمنٹیرین کے ٹول ٹیکس استثناء کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اب صرف فائر بریگیڈ، ایمبولینس، وزارت دفاع اور جج صاحبان کی گاڑیوں پر استثنا حاصل ہے۔ اراکین کمیٹی نے پارلیمنٹرین کے ٹول ٹیکس کے حوالے سے ٹول پلازوں پر آویزاں بورڈ ہٹانے کی ہدایات جاری کر دیں۔ 

سیکرٹری مواصلات نے بلوچستان کے منصوبہ جات کے حوالے سے کمیٹی کو تفصیلی آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ بلوچستان کے منصوبہ جات کو روک دیا گیا ہے اور پی ایس ڈی پی میں این ایچ اے کے بلوچستان کے منظور شدہ منصوبوں کی کوئی بھی سکیم ختم نہیں کی گئی۔ اس کے برعکس چمن سے کوئٹہ، کوئٹہ سے خضدار اور کوئٹہ سے کراچی تک کی شاہراوں پر کمرشل فیزیبیلٹی تیار کی جا رہی ہے۔ یہ منصوبہ جات ترجیحی بنیادوں پر مکمل کئے جائیں گے۔ 

قائمہ کمیٹی کو وزن کانٹے کے حوالے سے بتایا گیا کہ این ایچ اے پر مستقل 25، موٹر ویز پر 38، M۔2اور M۔9 پر 33وزن کنڈا اسٹیشن ہیں جبکہ کل 18موبائل وزن اسٹیشن ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ ایسی بڑی گاڑیاں جن کا وزن مقررہ حد سے زیادہ ہو انہیں جرمانہ کئے بغیر واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ 

ان تمام وزن اسٹیشنز کے ٹینڈرز این ایچ اے اور نیپرا کے قوانین کے تحت کئے گئے تھے۔ وزن کنڈا اسٹیشن BOT کی بنیاد پر آیوارڈ کئے گئے ہیں۔ ٹینڈرز کی تفصیلات کمیٹی کو پیش کر دی گئیں۔ 

چیئرمین این ایچ نے سیلاب کی ایمرجنسی صورت حال سے نمٹنے کے لئے مختص فنڈ کی تفصیلات سے قائمہ کمیٹی کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ فنڈ کے غیرقانونی استعمال کے حوالے سے محکمانہ انکوائری کمیٹی بنائی گئی تھی جس کی بنیاد پر چھ اعلیٰ حکام کو سخت اور دو افسران کو معمولی سزائیں دی جا چکی ہیں۔ جو کام غیرمعیاری اور معیار کے مطابق نہیں کئے گئے تھے ان کی ادائیگیاں بھی روک لی گئی ہیں۔ 

دریں اثناء سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و اصلاحات میں انکشاف ہوا ہے کہ گوادر میں لگے واٖٹرپلانٹس سے روزانہ 20لاکھ گیلن کی بجائے صرف 7 لاکھ گیلن پانی کی فراہمی ہو رہی ہے، پلانٹس کی خرابی سے متعلق وزارت منصوبہ بندی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ واٹر پلانٹس کی انسٹالیشن سے پہلے سروے ہی نہیں کرایا گیا،پلانٹس پانچ گھنٹے بعد ہی بند ہو جاتے ہیں۔

جمعرات کو سینیٹ قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر آغا زشاہ زیب درانی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، اجلاس میں قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز، سینیٹر رخسانہ زبیری،سینیٹر گیان چند، سینیٹر احمد خان ، سینیٹرعثمان کاکڑ، سینیٹر اسد اشرف اور سینیٹرمیر کبیر محمد شاہی نے شرکت کی۔

کمیٹی گوادر میں واٹر پلانٹس کی خرابی سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ بی ڈی اے کی جانب سے لگائے گئے پلانٹ سے گوادر کیلئے 7لاکھ گیلن روزانہ پانی کی فراہمی ہو رہی ہے،پلانٹس میں کوئی خرابی نہیں، ابتدائی ایام میں گوادر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مسائل سامنے آئے،اپریل 2017 کو مکمل صحیح حالت میں ایف ڈبلیو او کے حوالے کیا گیا۔

انڈسٹری کے لئے لگائے گئے پلانٹس ٹیکنیکل طورپر ٹھیک لگے ہیں، انہی پلانٹس سے پینے کیلئے پانی مہیا کیا جارہا ہے،اگر یہ پلانٹس غلط لگے ہوتے توایف ڈبلیو او بیس لاکھ گیلن روزانہ پانی کی فراہمی کا وعدہ نہیں کرتا۔

سیکرٹری وزارت منصوبہ بندی و اصلاحات ظفر حسن نے کمیٹی کو بتایا کہ مانیٹرنگ کرنا پلاننگ منسٹری کی ذمہ داری نہیں،ہم صرف پی ایس ڈی پی پراجیکٹس کی مانیٹرنگ کرتے ہیں،گوادر میں لگے واٹر پلانٹس کیلئے صوبائی حکومت نے فنڈز جاری کیے اس لیے خرابی کا ذمہ دار بھی بلوچستان حکومت ہے۔

نیشنل ہائی وے اتھارٹی حکام نے ہاکلہ ۔ڈی آئی خان روڈ بارے بریفینگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس سڑک کی تعمیر پر کل لاگت110ملین ہے،چار لائنز موجود ہیں،،مجموعی لمبائی 295کلومیٹر ہے،رائٹ آف وے 100 میٹر ہے، تعمیراتی کنسلٹنٹ نیسپاک ہے، روڈ میں بارہ انٹرچینجز ہیں،ہم تعمیرات نہیں ہونے دیتیں،پنڈی گھیپ سے کوہاٹ ک سڑک کی تعمیر کیلئے ٹینڈر بھی ہو چکا ہے،رائٹ آف وے پر ہمارا نقطہ نظر پے،مختلف پیکجز میں تقسیم کر رکھی ہیں۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی آغا شاہ زیب درانی نے کہا کہ پلانٹس کس نے چلانے ہیں کس نے نہیں ،یہ ایشو نہیں،اصل ایشو پلانٹس کا غلط لگنا ہے،20لاکھ گیلن مہیا ہونے چاہئیں تھے،صرف دو لاکھ فراہم ہوئی،سروے ہی نہیں کیا گیا اور پلانٹس چلائے گئے ۔

سینیٹر کہدابابر نے کہا کہ ایک پلانٹ بھی نہیں چلا،لوگوں نے اپنے جیبوں پلانٹس لگا کر پانی حاصل کی ہیں،پیسے کھا جاتے ہیں اور فنڈز جاری نہ ہونے کا رونا روتے ہیں،پہلے وفاق سے گلہ ہوتا تھا وہاں تو بلوچستان کے لوگوں نے ہی اپنوں پر ظلم کیے۔

واپڈا حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ نولانگ ڈیم کے پیسے کو کچی کینال منصوبوں میں استعمال کیا گیا،واپڈا کو ایک منصوبے کی فنڈز کو دوسرے منصوبوں کیلئے استعال کرنے کیلئے وزارت منصوبہ بندیی منظوری کی ضرورت نہیں،واپڈا ایکٹ کی خلاف ورزی کے ساتھ ہی ادارہ کمزور ہونا شروع ہوا۔

حکام نے بتایا کہ رواں سال پی ایس ڈی پی کے تحت واپڈا کو 232 بلین روپے ملے ہیں، ادارے کے فنڈز ایسائنمنٹ اکاؤنٹس میں چلے جاتے ہیں، پہلے بیس لائن اکاؤنٹس میں رکھے جاتھے تھے جن پر انٹرسٹ پر بھی ملتا تھا۔

بلوچستان حکومت کے حکام نے کمیٹی کو صوبے میں ڈیمز کی تعمیر سے متعلق بتایا کہ بلوچستان میں ڈیمز کی تعمیر کیلئے صوبے کو پانچ فیز میں تقسیم کیا گیا ہے،جس کے تحت 20ڈیمز تعمیر کیے جائیں گے،پیکج ون کی لاگت 2154.080ملین روپے اورڈیموں کی سٹوریج صلاحیت44438.1ایکڑ فٹ ہیں،مجموعی کمانڈ ایریا25850ایکڑ ہے۔

اس دوران سینیٹر احمد خان نے گروک ڈیم کی تعمیر سے متعلق سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جو کمپنی 10ارب کا گروک ڈیم کیلئے ڈس کولیفائی ہوئی اسے 304ارب کا مہمند ڈیم کا کنٹریکٹ دیا گیا،یہ معاملہ سمجھ سے بالا تر ہے،ایک جگہ ڈس کولیفائی اور دوسری جگہ کولیفائی ہونے کا معاملہ عجیب ہیں، گروک ڈیم بلوچستان کے ضلع خاران کے جنو ب مشرق کی جانب 47کلو میٹر دریا گروک پر قائم ہے۔

بلوچستان حکومت کے حکام نے بتا یا کہ ڈسکاؤن کمپنی گروک ڈیم کی کنٹریکٹ کیلئے جوائنٹ وینچر کمپنی کی وجہ سے ڈس کولیفائی ہوئی،مہمند ڈیم کا کنٹریکٹ پیپرا رولز کے مطالبق دیا گیا،گروک ڈیم کا معاملہ اس وقت عدالت میں ہے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ڈسکاؤن کمپنی کو عدالت نے کلیئر بھی نہیں کیا اور مہمند ڈیم کا کنٹریکٹ دیا گیا،اس کیس کا فیصلہ پانچ سال بعد بھی نہیں آئے گا، یہ کوئی سیاسی کیس ہوتا تھ عدالت فیصلہ دینے میں پانچ منٹ بھی نہ لگاتی۔