|

وقتِ اشاعت :   January 15 – 2019

سڑک حادثات بھی کسی دہشتگردی سے کم نہیں، ایک ہی حادثے میں کئی جانیں چلی جاتی ہیں بے شمار لوگوں کو عمر بھر معذوری کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔پاکستان بالخصوص بلوچستان میں سڑک حادثات کو کنڑول کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ سڑک حادثات کیوں رونما ہوتے ہیں، اس کے محرکات کیا ہیں؟ 

اگر وجوہات کی کتاب ڈھونڈنے میں لگ جائیں تو کئی عوامل کارفرما نظر آتے ہیں کبھی ڈرائیور کی غفلت تو کبھی حکومتی بے حسی و عدم توجہی ،تو کبھی ٹرانسپورٹرز کی لاتعلقی وغیرہ وغیرہ۔ اب کسے ذمہ دار ٹھہرائیں، جب کڑیاں ایک دوسرے سے ملائی جا رہی ہوں۔ یعنی بات ذمہ داری کی آجائے تو وہاں سب قصور وارمگر کیا کیا جائے کوئی بھی اپنا گریبان جھانکنے کے لیے تیار نہیں۔

بلوچستان میں سڑک حادثات تواتر کے ساتھ ہوتے چلے آرہے ہیں۔ ماضی میں حکومت بلوچستان کی جانب سے حادثات کی روک تھام کے لیے مختلف اعلانات کیے گئے اور حربے آزمائے گئے مگر بے سود۔آج تک کسی بھی اعلان پر عملدرآمد نہ کر سکے۔ گڈانی سڑک حادثہ کسے یاد نہیں ایک ہی حادثے میں چالیس سے زائد افراد جھلس کر مر گئے۔ حکومتی سطح پر اعلانات ہوئے تیل بردار گاڑیوں پر پابندی عائد کی گئی۔ 

مزید ایسے حادثات کی روک تھام اور ٹرانسپورٹرز کو پابند بنانے کے لیے بے شمار نوٹیفکیشن جاری ہوئے ۔نوٹیفکیشن فقط اجرا تک محدود رہے عملدرآمد کرانے میں حکومت کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔اب کی بار حکومتِ بلوچستان نے ایک نیا منصوبہ تیار کیا ہے۔ گزشتہ روز بلوچستان کابینہ کے سامنے کئی منصوبے زیر غور آئے، کئی تجاویز اور منصوبے منظور کیے گئے۔ 

ایک منصوبہ تھا سڑک حادثات سے متعلق۔ سڑک حادثات کے روک تھا م سے متعلق نہیں بلکہ سڑک حادثات میں زخمیوں کی بروقت طبی امداد اور انہیں جلد سے جلد مراکز صحت تک پہنچانے کا منصوبہ۔ منصوبے کو نام دیا گیاہے ریسکیو 1122 کا۔کابینہ نے منصوبے کی منظوری دے کر پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئر انیشیٹیو (پی پی ایچ آئی) کو اقدامات اٹھانے کا کہا ہے ۔ پی پی ایچ آئی بلوچستان بھر میں بنیادی مراکز صحت (BHU)کا ایک وسیع نیٹ ورک رکھتی ہے۔

بلوچستان بھر میں ادارے کے انڈر 650بنیادی مراکز صحت کام کر رہے ہیں۔پی پی ایچ آئی کے پاس افرادی قوت کی بھی کمی نہیں اور ادارہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے صوبائی حکومت کی توقعات پورا اتر سکے۔ 25کے قریب ایسے بی ایچ یوز ہیں جو شاہراہوں کے قریب واقع ہیں جنہیں ایمرجنسی سینٹر ڈیکلیر کرکے انہیں 24گھنٹے فعال بنایا جا سکتا ہے۔

حکومتِ وقت نے ریسکیو 1122کے ساتھ ساتھ قومی شاہراہوں پر ٹراما سینٹر کے قیام کا اعلان بھی کیا۔ کسی بھی ٹراما سینٹر کے لیے بنیادی طور پر خون کی ضرورت ہوتی ہے ماہر سرجن اور ساتھ ساتھ نیورو سرجن کی موجودگی بھی ضروری ہوتی ہے۔بلوچستان میں سرجن ڈاکٹروں کی کمی کو دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ حکومت اس پر عملدرآمد کرسکے گی۔

بلوچستان کو دیگر صوبوں، اور ایک شہر کو دوسرے شہر سے ملانے کے لیے شاہراہوں کا ایک طویل نیٹ ورک موجود ہے جن کی کل لمبائی 4556کلومیٹر ہے جو پاکستان کی شاہراہوں کا 37.63فیصد بنتا ہے۔مگر ان میں ایک بھی شاہراہ ایسی نہیں ہے جہاں بیک وقت دو گاڑیاں ایک ہی لائن میں سفر کر سکیں۔یہی وجہ ہے کہ سڑک حادثات کی ریشو ہر سال بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ 

ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کی شاہراہوں پر حادثات کے نتیجے میں سالانہ اوسطاً 300سے زائد افراد کی جانیں چلی جاتی ہیں جبکہ 550سے زائد افراد زخمی ہوجاتے ہیں۔ سڑک حادثات کی بنیادی وجہ ڈرائیورز کی غیر محتاط ڈرائیوونگ، ون لین سڑکیں ہیں جس کی وجہ سے ہر سال حادثات کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ مگر حادثات کی روک تھا م کے لیے عملی اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔ سب سے زیادہ سڑک حادثات 790کلومیٹر پر محیط کراچی کوئٹہ روٹ پر پیش آتے ہیں ۔

حکومتی اعلان دیر آید درست آید، مگر دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان اعلانات پر کس قدر عملدرآمد کرتی ہے۔ حکومتی ذمہ داری یہیں ختم نہیں ہوتی حکومت کو چاہیے کہ ایسے منصوبوں پر مستقل بنیادوں پر کام کرے جو عوام کی جان و مال کی حفاظت سے متعلق ہوں،جن سے حادثات و واقعات کو کو کم کرنے میں مدد مل سکے۔ کراچی کوئٹہ شاہراہ کی سنگل لین سڑک کو ڈبل کر کے مستقبل میں ایسے حادثات کو کم کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ حکومت اس پر سنجیدگی سے غور کرے۔