|

وقتِ اشاعت :   February 20 – 2019

بھارت کی وزارت خارجہ نے وزیر اعظم عمران خان کی پلوامہ حملے کی تحقیقات اور اس پر مذاکرات کیپیشکش مسترد کردی۔

بھارتی وزارت خارجہ نے عمران خان کی حملے کی تحقیقات کی پیشکش پر ردعمل میں اسلام آباد کی کشیدگی کم کرنے کی کوششوں کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ‘عمران خان کا یہ کہنا کہ پاکستان خود دہشت گردی سے سب زیادہ متاثر ہے، حقیقت کے برعکس ہے۔’

بیان میں کہا گیا کہ ‘ہمیں اس بات پر حیرانی نہیں ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے پلوامہ میں ہماری سیکیورٹی فورسز پر حملے کو دہشت گردی کا واقعہ تسلیم نہیں کیا، انہوں نے اس ظالمانہ واقعے کی مذمت کی اور نہ ہی متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔’

بھارتی وزارت خارجہ نے معاملے پر پاکستان کے موقف کو نظر انداز کیا جس میں دفتر خارجہ نے کہا تھا کہپاکستان، کشمیر میں کشیدگی کی مذمت کرتا ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں وزیر اعظم عمران خان پر جیش محمد اور حملے میں ملوث بمبار کے دعوؤں کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ‘دہشت گردانہ حملے اور پاکستان کے درمیان کسی تعلق سے لاعلمی کا اظہار کرنا اسلام آباد کا پرانا بہانہ ہے۔’

تاہم بیان میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ان ‘دعوؤں’ سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ حملے میں پاکستان کا ہاتھ ہے۔

یہ بات قابل فہم ہے کہ جیش محمد نے، جس پر پاکستان میں پابندی ہے اور اس کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے، واقعے کی ذمہ داری قبول کی لیکن یہ واضح نہیں کہ بھارتی وزارت خارجہ، جیش محمد کے حملے میں ملوث ہونے کے دعوے کے بیان کو پاکستان سے کس بنیاد پر جوڑ رہی ہے۔

پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان کی جانب سے کئی بار یہ کہا گیا کہ وہ جیش محمد کے خلاف کارروائی کر رہا ہے، کیونکہ وہ اسے دہشت گرد گروپ مانتا ہے۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بمبار، مقبوضہ کشمیر کا رہائشی تھا جبکہ اس کے والدین کا کہنا تھا کہ وہ شدت پسندی کی طرف، بھارتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے حقوق کی پامالیوں اور تشدد کی وجہ سے مائل ہوا۔

بھارتی وزارت خارجہ کے بیان میں اس کی بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ بمبار کا پاکستان سے کس طرح تعلق تھا۔

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے تعاون کے لیے ‘ٹھوس ثبوت’ فراہم کرنے کی درخواست پر عمل کے بجائے بھارتی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں بار بار یہ الزام لگایا کہ ‘جیش محمد اور اس کے سربراہ مسعود اظہر پاکستان میں موجود ہیں اور پاکستان کو ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے یہ ثبوت کافی ہیں۔’

بھارت وزارت خارجہ نے الزام لگایا کہ ‘پاکستان کے وزیر اعظم نے ثبوت فراہم کیے جانے پر معاملے کی تحقیقات کی پیشکش کی جو صرف ایک بہانہ ہے، ممبئی حملے اور پٹھان کوٹ کے حملے کے بھی ثبوت پاکستان کو دیئے جاچکے ہیں لیکن ان میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

بیان میں اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا کہ بھارتی حکام نے خود پٹھان کوٹ واقعے کی تحقیقات کو روکا تھا۔

ممبئی حملوں سے متعلق وزیر اعظم عمران خان نے دسمبر 2018 میں امریکی اخبار ‘واشنگٹن پوسٹ’ کو انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ان کی حکومت اس معاملے کو دیکھے گی۔

بھارتی وزارت خارجہ نے وزیر اعظم عمران خان کی مذاکرات کی تجویز کو بھی یہ غیر واضح شرائط رکھ کر مسترد کیا کہ ‘پاکستانی وزیر اعظم نے مذاکرات کا مطالبہ کیا اور دہشت گردی کے حوالے سے بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی، بھارت کئی بار یہ کہہ چکا ہے کہ وہ دہشت گردی اور تشدد سے پاک ماحول میں جامع دوطرفہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔’

بھارتی وزارت خارجہ نے عمران خان کی طرف سے حملے کو بھارت کے پارلیمانی انتخابات کے پیرائے میں دیکھنے پر کہا کہ ‘بھارت اس جھوٹے الزام کو مسترد کرتا ہے، بھارت کی جمہوریت دنیا کے لیے مثال ہے جو پاکستان کبھی نہیں سمجھے گا۔’