کوئٹہ: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین نزیر بلوچ نے کہا ہیسرکاری اعداد شمار میں دس لاکھ سے زائد بچوں کی اسکولوں سے باہر ہے جبکہ اصل تعداد 25 لاکھ اور 18 سو سے زائد سرکاری اسکولوں کی غیر فعالی بلوچستان کے نام پر ہونے والی ترقیاتی منصوبوں اور میگا پراجیکٹس کی حقیقیت یے کہ کسطرح بلوچستان کے وسائل کو لوٹ کر قوم کو صرف جہالت انتہا پسندی منشیات اور دیگر معاشرتی منفی عوامل کی جانب دکھیلا جارہا ہے۔
جبکہ اسکے علاوہ اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں سیکھنے اور شعوری تعلیم کا شرح بھی انتہا درجے تک کم ہے سالانہ ڈراپ آوٹ میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہورہی یے نقل سفارش اور اساتذہ کمی کی وجہ بلوچستان کے دور دراز کے کالجز صرف برائے نام حد تک فارم جمع کرنے اور امتحانات کے انعقاد تک محدود یے دور دراز علاقوں کے طلبا و طالبات ٹیوشن مافیا کے ہاتھوں مجبور ہوکر کوئٹہ میں پڑھ رہے ہیانہوں نے مزید کہا ہے۔
بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کے ساتھ جب بھی مظالم کے سلسلے کو تیز کیا گیا اور مظالم اور حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کی خاطر ہمیشہ لولی پاپ دینے کی کوشش کی گئی تاکہ رائے عامہ کو گمراہ کیا جاسکے حالیہ شعبہ تعلیم میں اعلان گریڈ انٹرشپ پروگرام جسکے تحت غیر قانونی طور پر 12 سو سے زائد گریڈ سترہ کے آسامیوں کو پر کیا جارہا ہے یہ دراصل شعبہ تعلیم کے ساتھ مذاق اور محکمے میں کرپشن سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے ۔
کہ کسطرح گذشتہ کئی سالوں سے شعبہ تعلیم کو تجربات کے آڑ میں مکمل تباہ کی گئی نقل سفارش کلچر کو پروان چڑھا کر تعلیمی اداروں کو بجائے شعور دینے کے کلرک بنانے کے فیکٹریوں میں تبدیل کی گئی حکومت کی موجودہ تعلیمی پالیسی بجائے تعلیم اداروں کو دانش مراکز بنانے کے صرف نوکر بھرتی کے زریعے بنانے کی یے جسے بی ایس او مسترد کرتی ہے
بلوچستان میں 25لاکھ سے زائد سرکاری اسکول غیر فعال ہیں
وقتِ اشاعت : February 24 – 2019