|

وقتِ اشاعت :   March 7 – 2019

ایبٹ آباد پولیس نے کوہستان ویڈیو اسکینڈل منظر عام پر لانے والے افضل کوہستانی کے قتل کے الزام میں مقتول کے بھتیجے کو گرفتار کر لیا۔

اس حوالے سے پولیس نے دعویٰ کیا کہ افضل کوہستانی کے بھتیجے فیض الرحمن کے قبضے سے قتل میں استعمال ہونے والی پستول بھی برآمد کرلی۔

دوسری جانب زیر حراست ملزم کے اہلخانہ نے پولیس کے خلاف فیض الرحمن کی گرفتاری پر احتجاج کیا۔

خیال رہے کہ افضل کوہستانی کو گزشتہ رات 8 بجکر 10 منٹ پر ابیٹ آباد کے سربان چوک پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

فیض الرحمن کے اہلخانہ نے موقف اختیار کیا کہ مقتول افضل کوہستانی کو مسلسل جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں جس کے بعد فیض الرحمن بطور گارڈ تحفظ فراہم کررہا تھا۔

واضح رہے کہ مقتول کے اہلخانہ اور ان کے قبائلی بزرگوں نے کینٹ پولیس اسٹیشن کے سامنے دھرنا دیا اور 20 گھنٹے پر مشتمل سلسلہ وار مذاکرات اور بات چیت کے بعد دھرنا ختم ہوا۔

اس ضمن میں بتایا گیا کہ ہری پور کے ایس پی انویسٹی گیشن شاہ نذیر کو خصوصی طور پر طلب کیا گیا جنہوں نے احتجاجی مظاہرین میں شامل مقتول کے بھائی بن یاسر اور ان کے وکیل عبدالودود سے مذاکرات کے احتجاجی دھرنا ختم کرایا۔

مظاہرین کی جانب سے مقتول کے زیر حراست بھیجے کو چھوڑنے کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

بتایا گیا کہ ’پولیس کی جانب سے جوڈیشل انکوائری اور افضل کوہستانی کے باقی ماندہ اہلخانہ بیوی اور 5 بچوں کے تحفظ کی یقین دہانی پر احتجاجی دھرنا ختم کیا گیا‘۔

بعدازاں پولیس نے افضل کوہستانی کے بھتیجے کا بیان ان کے وکیل کی موجودگی میں ریکارڈ کیا جسے کل عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

تاہم پولیس نے ملزم کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے بعد اپنی تحویل میں لے لیا۔

مدعی کا قتل ریاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے، بلاول بھٹو

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے افضل کوہستانی کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اہم ترین کیس کے مدعی کا یوں قتل ہونا ریاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

انہوں نے حکومت پر کڑی تنقید کی اورکہا کہ ’ نئے پاکستان میں انصاف تو دور کی بات مدعی کو ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انتہائی ہائی پروفائیل کیس کے مدعی کا قتل نظامِ انصاف پر عوام کے اعتماد کے لیے زہر سے کم نہیں، یہ قتل خیبرپختونخواہ میں امن و امان کے متعلق دعوَوں کے منہ پر بھی تمانچہ ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’مقتول افضل کوہستانی تحفظ کے لیے منتیں کرتا رہا لیکن حکمران بے حِس رہے‘۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ تحقیقات ہونی چاہیے کہ پی ٹی آئی حکومت نے ایسے کونسے اقدامات کیے کہ افضل کوہستانی آسان حدف بن گیا۔

کوہستان ویڈیو کیس

خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے ایک نوجوان نے 2012 میں میڈیا پر آکر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے 2 چھوٹے بھائیوں نے شادی کی ایک تقریب میں رقص کیا تھا اور وہاں موجود خواتین نے تالیاں بجائی تھیں۔

تقریب کے دوران موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو بعد میں مقامی افراد کے ہاتھ لگ گئی، جس پر مقامی جرگے نے ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کے قتل کا حکم جاری کیا اور بعد میں ان لڑکیوں کے قتل کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔

قبائلی افراد کی جانب سے ویڈیو میں موجود لڑکوں اور لڑکیوں کو قتل کرنے کے احکامات جاری ہونے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے 2012 میں معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

اس وقت کی وفاقی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے واقعے کی تردید کی تھی، جبکہ سپریم کورٹ کے حکم پر کوہستان جانے والی ٹیم کے ارکان نے بھی لڑکیوں کے زندہ ہونے کی تصدیق کی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں زیر سماعت کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے معاملے پر سماجی رضاکار فرزانہ باری نے لڑکیوں کے قتل سے متعلق شواہد پر مبنی دستاویزات اور ویڈیو عدالت میں جمع کرائی تھیں، جس کے مطابق جو لڑکیاں کمیشن کے سامنے پیش کی گئی تھیں وہ ویڈیو میں نہیں تھیں۔

ویڈیو میں دکھائی دینے والے لڑکوں میں سے ایک لڑکے کے بھائی محمد افضل کوہستانی نے قتل سے قبل بذریعہ میڈیا اپنے بھائی کی جان بچانے کی درخواست بھی کی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ نے 28 مارچ 2017 کو کوہستان سیش کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 3 لڑکوں کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث گرفتار ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ کوہستان کی سیشن عدالت نے مکمل ٹرائل کے بعد گرفتار 6 ملزمان میں سے ایک کو سزائے موت اور 5 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور ملزمان کو 2،2 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

رواں سال 2 جنوری کو کوہستان ویڈیو کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں خیبر پختونخوا (کے پی) کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے انکشاف کیا تھا کہ پولیس نے اپنی تفتیش میں کہا ہے کہ 2011 میں کوہستان میں سامنے آنے والی ویڈیو میں رقص کرنے والی پانچوں لڑکیوں کو قتل کردیا گیا تھا۔

جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ عدالت نے اس وقت تین کمیشن مقرر کیے تھے ان کی کیا رپورٹ تھی، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کمیشن کے سامنے جعلی لڑکیاں پیش کرکے کہا گیا تھا کہ کسی کو قتل نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایک کمیشن میں فرزانہ باری کو بھی شامل کیا گیا تھا، ان کی کیا رائے تھی، جس پر انہیں بتایا گیا کہ فرزانہ باری نے اس رپورٹ سے اختلاف کیا تھا اور اب ثابت ہوگیا ہے کہ ان کا اختلاف درست تھا اور لڑکیاں قتل ہوئی تھیں۔

عدالت عظمیٰ نے ملزمان کے خلاف 10 روز میں چالان پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ مقتولین کے لواحقین اگر چاہیں تو مقدمے کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں چلانے کی درخواست ہائی کورٹ میں دے سکتے ہے۔