|

وقتِ اشاعت :   March 9 – 2019

؂قدیم عمارت کے سامنے چار موٹر سائیکلیں کھڑی ہیں۔ کرسی پر بیٹھا نوجوان ایک شخص کی آمد پر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اس سے سلام و دعا کرتا ہے پھر بیٹھ جاتا ہے۔ آنے والا فرد ایک کمرے کے اندر داخل ہوجاتا ہے ہم بھی یہی عمل دہرا کر اس کے پیچھے پیچھے اسی کمرے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کمرے کے اندر مریضوں کا مجمع لگا ہوا ہے طبیب ایک مریض کو درد کا انجکشن لگانے میں مصروف ہے۔

گردے کی تکلیف میں مبتلا 20سالہ نصیب اللہ اس سیپہلے دیسی ٹوٹکوں سے اپنا علاج کرتارہا ’افاقہ نہیں ہوا وہ بنیادی مرکز صحت چلے آئے۔ درد کا انجکشن لگانے سے اب وہ کافی بہتر محسوس کر رہاہے اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھی جا سکتی ہے۔مریض سے فارغ ہو کر وہ ہمیں دیکھتے ہیں اٹھ کر گلے لگاتے ہیں خیرخیریت پوچھتے ہیں پھر مریضوں کے ساتھ جٹ جاتے ہیں۔

ہمارے ایک ساتھی ریاض مینگل ان کا تعارف کراتے ہوئے کہتے ہیں کہ سعید احمد ہیں حال ہی میں یہاں بطور ڈسپنسر تعینات ہوئے ہیں۔وہ مریضوں سے کیس ہسٹری پوچھتے ہیں ان کی چیک اپ کرتے ہیں اسٹاک سے دستیاب دوائی نکال کر انہیں دے دیتے ہیں پھر سامنے پڑے رجسٹر میں ان کی انٹری کرتے ہیں ۔ روزانہ کتنے مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں یہی سوال ان سے کیا۔ ’’ 20سے 25کا۔ 

سیزن میں یہ تعداد بڑھ جاتا ہے (سیزن سے مراد فصلات کی کاشت کے موقع پر نئے مسافروں کی آمد کا سلسلہ)‘‘۔ یہاں ڈیوٹی دینے کے لیے آمادہ کیسے ہوئے ؟دوسرا سوال ان سے یہی تھا؟’’ میں قوم کا سمالانی ہوں۔دورانِ ڈیوٹی یہاں سے کوئی مریض ڈی ایچ کیو ہسپتال مستونگ آتا تو میں ان سے علاقہ اور قوم کا پوچھتا تو وہ اپنے آپ کو لڈّی دشت کا اور قوم سمالانی بتاتے تو میرے دل میں خواہش جاگ اٹھتی کہ کاش مجھے وہاں خدمت کا موقع مل جاتا۔ ایک دن ریاض مینگل صاحب نے کہا کہ لڈی دشت کے لیے انہیں عملے کی تلاش ہے تو میں پہلے سے تیار بیٹھا تھا ڈیوٹی دینے کے لیے فوراً آمادہ ہوا‘‘۔ 

دشت کا یہ مسافر مسیحا ہفتے کے تین دن لڈی میں خدمت سرانجام دیتا ہے۔ خدمت کی انجام دہی کے لیے اسے روزانہ 78کلومیٹر کا مسافت طے کرنا پڑتا ہے جو وہ اپنی خوشی سے اور خرچہ اپنی جیب سے برداشت کرکے کرتے ہیں مگر یہ سفر ان پر گراں نہیں گزرتی۔کہتے ہیں کہ اگر بی ایچ یو مکمل طور پر فعال کیا گیا تو وہ پورے ہفتے ڈیوٹی دینے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ 

لڈّی دشت سے مستونگ کا فاصلہ 39کلومیٹر کا ہے مستونگ سے لڈّی دشت کا سفر کرتے ہوئے ہمیں سڑک پر ٹریفک کی کہیں بھی روانی نظر نہیں آئی ،اکا دکا موٹر سائیکل سوار نظر آئے یا قلی جو ٹوٹی پھوٹی سڑک کا دامن خاک سے پُر کر رہے تھے۔ 

کہیں کہیں ہمیں خالی مکان نظر آئے جن کے مکین نہ جانے کہاں جا چکے تھے۔ سفر میں شریک ہمارے ایک اور ساتھی داؤد قمبرانی نے بتایا کہ یہ مکین معاش کے حصول کے لیے نقل مکانی کر چکے ہیں حالیہ بارشوں سے قبل یہاں قحط سالی نے پورے علاقے کو اپنے لپیٹ میں لے لیا تھا ذریعہ معاش کا حصول مشکل ہو گیا تھا تو یہ گھر بار چھوڑ کر شہر یا دیگر علاقوں کو آباد ہوگئے تھے۔ میں نے ایک لمبی آہ بھری ۔۔۔ معاش بھی کیا چیز ہے کہ انسان کو اُس زمین سے بھی جدا کرنے پر آمادہ کرتا ہے جس زمین سے وابستہ اس کی یادیں اور باتیں ہیں۔ 

نہ جانے مکینوں کے جانے کے بعد یہ مکان کتنے روئے ہوں گے اور مکین کتنا۔ دشت اور بیابانوں کی یاداشت ایسی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ کہیں کہیں ہمیں خانہ بدوش بھی نظر آئے جو قیام کے لیے جگہ کا تعین کر رہے تھے۔ 

لڈّی دشت مستونگ کا پسماندہ علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ علاقہ غربت کی لپیٹ میں رہتا ہے ذریعہ معاش کا انحصار کھیتی باڑی پر ہے۔ جگہ جگہ ہمیں سولر پلیٹیں نظر آئیں جو مشینوں کو توانائی پہنچا کر زیر زمین پانی کو سطحِ زمین پر لانے کا کام کرتے ہیں۔ زمین سخت ہونے کی وجہ سے یہاں صرف دو ہی فصل پیاز اور آلو ہی اگایا جاتا ہے۔ 

حکومتِ بلوچستان نے بنیادی صحتکی فراہمی کے لیے یہاں ایک بلڈنگ بعنوان بی ایچ یو 1994کوتعمیر تو کیا تھامگر اس میں روح ڈالنے کی جسارت کبھی نہیں کی ۔ کبھی یہاں جانور باندھے گئے تو کبھی یہ عمارت بھوسے سے بھر تا رہا۔بنا روح کے عمارت چیختا رہا چلاتا رہا۔جب یہ چیخ پی پی ایچ آئی منیجر کے کانوں میں پڑی تو انہوں نے اس میں جان ڈالنے کی ٹھانی ۔ان کی کوششوں سے یہ بنیادی مرکز صحت گزشتہ ہفتے بحال ہوگیا۔

اب تک یہ بنیادی مرکزِ صحت بند کیوں تھا یہی سوال میں نے منیجر پی پی ایچ آئی مستونگ ریاض احمد مینگل سے کیا۔ تو ان کا کہنا تھا’’ یہ بی ایچ یو تاحال پی پی ایچ آئی کو ہینڈ اوور نہیں کیا گیا ہے اور ہم اس سے لاعلم تھے۔ 

دور افتادہ اور پسماندہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ نظرانداز تھا ایریا سے ایک دو پولیو کے کیسز سامنے آئے اور جب ہم نے یہاں کا دورہ کیا تو ہمیں بنیادی مرکزِ صحت کی موجودگی کا پتہ چلا ہم نے ضلعی آفیسر صحت سے کوارڈینیشن کرکے اسے ادویات اور فرنیچر فراہم کیے۔ اور ڈسپنسر کی تعیناتی سے مرکزِ صحت کی رونقیں بحال ہو گئی ہیں‘‘۔ لڈّی دشت کے علاوہ چھ اور غیرفعال بی ایچ یوز ایسے ہیں جو تاحال پی پی ایچ آئی کو حوالے نہیں کیے جا چکے ہیں حوالگی سے متعلق وہ ڈپٹی کمشنر کو خط لکھ چکے ہیں۔

عمارت خستہ حال ہے۔دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹ چکے ہیں اور عمارت جگہ جگہ سے کریک ہے۔کھڑکیوں کا خانہ گارے اور مٹی سے بھر دیا جا چکا ہے۔ تاہم مریضوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ امیر حمزہ اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ پانچ کلومیٹر کا فاصلہ موٹرسائیکل پر طے کرکے یہاں آئے ہیں۔ بچے کو دست الٹی کی شکایت ہے۔ 

اس سے پہلے انہیں معمولی بیماری کے لیے پک اپ بک کرکے ڈی ایچ کیو ہسپتال مستونگ جانا پڑتا تھا جس کے لیے انہیں 2000روپے گاڑی والے کو دینے پڑتے تھے۔ اب جبکہ یہ پیسے ان کے بچ رہے ہیں تو یہ رقم وہ اپنی خوراک اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال میں لائیں گے۔ بی ایچ یو کی فعالیت کی خبر ان تک کیسے پہنچی۔۔ ’’ لوگوں کے ذریعے‘‘۔۔ 

گو کہ سعید احمد ڈاکٹر نہیں ہیں مگر ان کی 28سالہ سروس نے انہیں بنیادی صحت سے متعلق وہ معلومات اور تجربات فراہم کیے کہ وہ چھوٹے پیمانے کی بیماریوں کے لیے نسخہ آسانی سے تجویز اور طبی امداد فراہم کرسکتے ہیں اب وہ علاقے میں ڈاکٹر کے نام سے مشہور ہیں ان کی آمد اور سروسز سے علاقے کی رونقوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اگر خدمت کا جذبہ ہو تو مشکل سے مشکل ہدف آسان لگتا ہے اگر نہ ہو مختصر سفر بھی گراں لگے اور بہانے تراشنے پر آمادہ ہوجائے۔

بیماری کے باوجود ہم یہاں کے مریضوں کے چہرے پر خوشی اور مسکراہٹ کے آثار دیکھ سکتے ہیں یہ مسکراہٹیں پی پی ایچ آئی کی کوششیں اور سعید احمد کا جذبہ لیکر آئے ہیں۔ سوال پھر بھی اٹھتا ہے کہسعید احمد آخر کب تک ؟ مسافر کو ایک نہ ایک دن تو چلے جانا ہے۔ سو ان کے چلے جانے کے بعد جوخلاء پیدا ہوگی اسے کون پر کرے گا یہ وہ سوال ہے جو ہر آنے والے دن مجھے اور آپ کو اپنے حصار میں لیتا رہے گا۔ 

One Response to “دشت کا مسافر مسیحا”

  1. Fayyaz jamali

    Pphib ko aisey he committed dasht k musafir maseehaoun ki zarurat hai

Comments are closed.