|

وقتِ اشاعت :   May 11 – 2019

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو مذاکرات کی دعوت دے دی تاہم ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ایران کیخلاف فوجی کاروائی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ اگر ایرانی قیادت چاہے تو وہ مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایران کی قیادت میرے ساتھ نیوکلئیر پروگرام ترک کرنے پر مذاکرات کرے۔انہوں نے مزید کہا کہ امید ہے فوجی تصادم نہیں ہو گا۔

گزشتہ روز ایران کے صدر حسن روحانی نے عالمی طاقتوں کو خبردار کیا تھا کہ اگر امریکہ کو پابندیوں سے باز نہ رکھا گیا تو یورینیم کی افزدوگی شروع کردی جائے گی۔حسن روحانی نے کہا کہ اگر برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی نے 60 دن کے اندر امریکہ کی طرف سے ایران پر لگائی گئی پابندیاں ہٹانے کے بارے میں کچھ نہ کیا تو ہم بڑے پیمانے پر یورینیم کی افزودگی شروع کر دیں گے۔

دوسری جانب فرانس کی وزیر دفاع نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں امریکہ ایران نیوکلیئر ڈیل برقرار رہے لیکن اگر ایران نے خلاف ورزی کی تو اسے مزید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈیل کی خلاف ورزی کا سب سے زیادہ نقصان ایران ہی کو ہوگا۔ٹرمپ کی طرف سے امریکہ ایران نیوکلیئر معاہدہ ختم ہوئے ایک سال ہونے کو ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر نہ صرف دوبارہ پابندیاں لگا دی ہیں بلکہ ان میں اضافہ بھی کیا ہے۔ امریکہ نے دوسرے ممالک کو متنبہ کیا ہے کہ ایران سے تیل کی خریداری بند کریں بصورت دیگر ان کو بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ایران پر امریکی دباؤ یہ پہلی بار نہیں بلکہ اس سے قبل بھی امریکی فوجی حکام اور دفاعی ماہرین ایران کے خلاف باتیں کرتے سنائی دیتے ر ہے ہیں۔

امریکی حکام نے چند سال قبل اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ایران نے بین الاقوامی جوہری معاہدہ پر مکمل عمل درآمد کیا مگر یہ پورے خطے میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ غالباً دنیا کے دیگر بڑے ممالک خصوصاً روس‘ چین اور فرانس نے اعلانیہ طورپر کہہ دیا ہے کہ ایران نے جوہری معاہدہ پر عمل درآمد کیا ہے۔

امریکا ان کی رائے سے انحراف نہیں کرنا چاہتا اس لیے یہ تصدیق کرنا چاہتا ہے کہ ایران نے جوہری معاہدہ پر مکمل طورپر عمل کیا لیکن امریکا عراق، شام اور دیگر ممالک میں ایرانی افواج کی موجودگی اور مداخلت کا الزام لگاتا آرہا ہے۔ امریکا شام میں ایران کی موجودگی سے ناراض تھا، اس کے بعد یمن کا واقعہ پیش آیا، ایران کے حمایتی حوثی باغیوں نے پورے یمن پر قبضہ کر لیا۔

وہاں کی سابق حکومت کو بر طرف بلکہ بے دخل کردیا جس کے رد عمل میں سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی فوجی اتحاد بنایا گیا جس کی سرپرستی امریکا اور نیٹو ممالک بھی کررہے ہیں۔شام کے فوجی اڈے پر میزائل حملے کے بعد امریکا شاید ایران کی طرف رخ کرنا چاہتا ہے۔

سعودی فوجی مشیر نے وال اسٹریٹ جرنل کواپنے ایک انٹر ویومیں کہا تھا کہ اسلامی اتحاد صرف دہشت گردی‘ داعش اور القاعدہ کے خلاف نہیں ہے، یہ اتحاد حوثی باغیوں کے خلاف یمن میں فوجی کارروائی کر سکتی ہے۔ اس بیان کے بعد صورت حال صاف اور واضح ہوگئی تھی کہ اس کا مقصد علاقائی امن ہے اور اتحاد کی بالادستی قائم کرنا ہے۔

یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ سعودی حکومت جلد یا بدیر حوثی باغیوں کے خلاف زمینی حملے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اتحادی طیارے پہلے ہی یمن پر بمباری کرچکے ہیں اور یمن کو اس بمباری سے شدید نقصان پہنچا ہے اس دوران یمن میں زبردست قحط پیدا ہوچکی تھی اور چالیس لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے تھے۔ ایک طرف یمن کے بہانے ایران پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے اور دوسری طرف شام اور عراق میں ایران کے زیادہ اثر ونفوذ سے امریکا نالاں ہے۔

امریکا نے حالیہ دنوں میں ایران کے خلاف پروپیگنڈا مہم میں اضافہ کیا ہے، دوسری جانب ایران بھی پورے خطے میں مکمل طورپر متحرک نظر آتا ہے۔ اس کے روس کے ساتھ تعلقات زیادہ قریبی ہوگئے ہیں ایران نے روس کو یہ اجازت دی ہے کہ شام پر ہوائی حملوں کے لیے وہ ایرانی فضائی اڈے اور دیگر سہولیات استعمال کر سکتاہے۔

ایران افغانستان کو تجارتی راہداری چاہ بہار کی بندر گاہ سے فراہم کررہا ہے تاکہ افغانستان کا پاکستان پر اور خصوصاً کراچی پورٹ پر انحصار کم سے کم ہو بلکہ ممکن ہو تو پورے درآمدات چاہ بہار کے ذریعے ہوں۔

ایران کے خلاف جانے والے محاذ سے یقینا خطے میں ایک غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوگی جس کا متحمل اس وقت خطہ نہیں ہوسکتا مگر امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کسی اقدام سے بھی گریز نہیں کرے گا لیکن اب یہ عالمی طاقتوں پر منحصر ہے کہ موجودہ صورتحال میں کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے وہ اپناکردار ادا کریں تاکہ عالمی امن کیلئے خطرات کم ہوسکیں۔