|

وقتِ اشاعت :   May 13 – 2019

پاکستان بھر میں پولیس کے مظالم اور تشدد کے چرچے عام ہیں۔ خصوصاً پنجاب پولیس سب سے آگے ہے آئے دن پنجاب پولیس کے کارنامے میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں، پولیس ہے کہ حکمرانوں کے قابو سے باہر ہے، قابو میں بھی کیوں آئے کیونکہ حکمران اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لئے پولیس کا استعمال کرتے آئے ہیں۔ بہت زیادہ پڑھے لکھے اور نیک افسران پولیس فورس میں موجود ہیں مگر پولیس میں ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

ماضی گواہ ہے کہ حکمرانوں نے کس طرح کرپٹ اور بے ایمان پولیس افسران کو ترجیح دیتے ہوئے ان کی تعیناتی کیلئے اپنا اثر ونفوذ استعمال کیا کیونکہ وہ ہر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لئے ان کو پولیس سروس میں ترجیح دی جاتی ہے کم و بیش پولیس یہی کام دوسرے صوبوں میں بھی کرتی ہے۔ پنجاب کے بعد سندھ کا نمبر آتا ہے وہاں بھی حکمران پولیس افسران کی چاپلوسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پولیس کو خوش کرنے کیلئے ماضی میں حکمران انہیں تحائف تک بھیجتے رہے ہیں تاکہ ان سے اپنے مفادات کے کام باآسانی کرائے جاسکیں اورساتھ ہی فرمائش پر ان کے احکامات صحیح یا غلط بجا لائے، قاتلوں کو رہا کردے اور مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرائے۔سندھ اور پنجاب میں تھانہ کلچر عام ہے اسی کلچر کی وجہ سے سندھ اور پنجاب میں حکمران کمالات دکھاتے رہتے ہیں۔

البتہ کے پی کے میں روایات بہتر ہیں کرپشن اور دیگر جرائم سندھ اور پنجاب سے کم ہے۔ وجہ اکثر پولیس افسران حکومت کے سامنے،سماج کے سامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔ رہی بات بلوچستان کی تو یہاں پولیس کا ایریا بہت ہی کم ہے بلکہ چند بڑے شہروں اور قصبوں تک محدود ہے۔ جہاں پر جرائم کی شرح بہت زیادہ ہے خصوصاً منظم جرائم زیادہ تر شہروں میں ہوتے ہیں۔

دیہاتوں میں یا دور دراز قبائلی علاقوں میں بلوچستان لیویز کام کرتی ہے جو ایک مقامی فورس ہے بلکہ ایک کیمونٹی پولیس ہے جو اپنے سماج کا دفاع کرتی ہے اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کرتی ہے چونکہ بلوچستان لیویز مقامی سماج کا ایک حصہ ہے تو وہ اپنے لوگوں کی نگاہ میں ہے یہی اس کا سب سے بڑا احتساب ہے ہر لیویز کا سپاہی مقامی سماج کا حصہ ہے باہر سے نہیں آیا جو کھاتے پیتے گھرانوں کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے اور رقم بٹورے‘ کوئی سیاسی شخصیت یا قبائلی شخصیت بد نامی کے خوف سے لیویز کے سپاہیوں یا افسروں سے غلط کام نہیں لے سکتا کیونکہ سپاہی یا افسر سماج کے سامنے جوابدہ ہے اس لئے وہ فوراً نام بتا دیتاہے کہ فلاں شخص یا افسر کا غیر اخلاقی اور غیر قانونی حکم تھا جو اس نے غلط طورپر بجا لایا۔

چونکہ پوری فورس مقامی افراد پر مشتمل ہے اور ایک دلیر فورس ہے اس وجہ سے ان علاقوں میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیویز مقامی سپاہیوں اور افسران پر مشتمل ہے ان کے پاس سماج کی مکمل اطلاعات ہوتی ہیں کہ کہاں کیا ہورہا ہے اور کون کیا کررہا ہے ان سے کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں ہے جرائم پیشہ افراد ان سے خوفزدہ رہتے ہیں۔

سرکاری احکامات پر زبانی کلامی عمل درآمد ہوجاتا ہے اگر کسی سے کہا جائے کہ وہ گرفتار ہے تو وہ لیویز کے سپاہی کے ساتھ ایک شریف انسان کی طرح چل پڑتاہے اور ان کو ہتھکڑی پہنانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ لیویز فورس کو جدید خطوط پر منظم کیا جائے،اس کی زیادہ بہتر تربیت کی جائے،بہتر اسلحہ سے لیس کیا جائے،ان کے مقامی افسران کو پی ایس پی افسران کی طرز پر تربیت دی جائے تاکہ وہ بلوچستان میں مزید بہتر انداز میں اپنے فرائض سرانجام دے سکیں۔

لیویز فورس کے متعلق موجودہ حکومت اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے، بی ایریاز کو ختم کرنے سے مسائل کم نہیں ہونگے اگر حکومت ان علاقوں کی ترقی میں زیادہ دلچسپی لے تو یہ بہتر ہوگا، اے ایریا کا درجہ دینا کافی نہیں، آج بھی کوئٹہ کے اے ایریا کے گنجان آبادی والے علاقے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جوکہ صوبہ کا دارالخلافہ ہے لہٰذا بلوچستان کے بی ایریاز کو لیویز کے ماتحت ہی رہنے دیا جائے تاکہ اندرون بلوچستان کے معصوم شہری پولیس کی لوٹ مار سے بچے رہیں، یہ بھی اپنے عوام کے لیے ایک بڑی خدمت ہوگی۔