یہ بات ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ بلوچستان،اندرون سندھ، جنوبی پنجاب اور گلگت، بلتستان ملک کے سب سے پسماندہ ترین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ماضی میں جتنی بھی حکومتی آئیں انہوں نے ان علاقوں کی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی۔
حقیقت یہی ہے کہ ان علاقوں کو ترقی کی دوڑ میں نظر انداز کیا گیا بلکہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ ظلم خدا کا کہ 70سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ان علاقوں میں مستقبل کی ترقی کے لئے بنیادی ڈھانچہ ہی تیار نہیں کیا گیا اور اگر اب ان علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کاکام شروع کیا گیا ہے تو اس کو مکمل کرنے میں مزید 70 سال نہ لگائے جائیں۔
بلوچستان اس کی واضح مثال ہے جس کے دوردراز علاقوں میں کوئی صنعت نہیں ہے اور جوصنعتیں ہیں وہ بلوچستان سے زیادہ سندھ کے لیے فائدہ مند ہیں کیونکہ یہ صنعتیں حب اور وندر میں لگائی گئی ہیں۔ یہ صنعتیں اس وقت لگائی گئیں جب حکومت نے ٹیکس میں چھوٹ اور دیگر مراعات دینے کا اعلان کیاتھا۔
جب یہ مراعات حکومت پاکستان نے واپس لیں تو 300سے زائد صنعتیں حب اور وندر سے منتقل ہو کر پنجاب چلی گئیں جہاں بلوچستان کی نسبت زیادہ ٹیکسزمیں چھوٹ کے علاوہ دوسری بہت ساری ترغیبات بھی دی گئیں۔ اس لیے بلوچستان میں جو بھی کارخانے لگائے گئے وہ کراچی کے قریب تھے جہاں ترقی کا بنیادی ڈھانچہ موجود تھا۔دوردراز علاقوں کو دانستہ طورپر پسماندہ رکھا گیا وہاں بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں بنایا گیا تو ترقی کے آثار کیسے دکھائی دیتے۔
بلوچستان کے بعض علاقے اتنے پر کشش ہیں کہ وہاں پر ترقی کے بہت زیادہ مواقع موجود ہیں جن میں لسبیلہ، نصیر آباد، مکران ڈویژن بشمول اس کی ساحلی پٹی جہاں پر سرمایہ کاری کے زبردست مواقع موجود ہیں۔ایرانی بندر گاہ چاہ بہار گوادرسے تقریباً 72کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے جہاں پر جاپان‘ کوریا اور دیگر یورپی ممالک پچاس ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کررہے ہیں حالانکہ یہ تمام ممالک پہلے گوادر میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔
مگر ترقی کی سست رفتاری کے باعث ان ممالک نے چاہ بہاربندر گاہ میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا۔ ساحل مکران آئندہ چند سالوں میں پورے خطے کا صنعتی اور معاشی ترقی کا بہت بڑا مرکز بنے گا اس لیے مکران، لسبیلہ اور نصیر آباد پر زیادہ توجہ دی جائے، ماضی کے حکمرانوں کی پالیسیوں کی وجہ سے گلگت بلتستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب بھی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ مرکز میں جن کی حکومتیں بنیں انہوں نے ان کم ترقی یافتہ علاقوں پربہت کم توجہ دی بلکہ ان تمام علاقوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا ررکھا گیا۔ ساری کی ساری توجہ وسطی پنجاب اور کراچی پر مر کوز کی گئی جس سے عوام میں بد دلی اور نا امیدی پیدا ہوئی۔اس سے قبل2017ء کے دوران پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہاتھا کہ کم ترقی یافتہ علاقوں پر توجہ دی جائے جس سے معیشت اور سیکورٹی کے درمیان ایک خوشگوار توازن قائم ہوگا۔
ظاہر ہے کہ موجودہ حالات میں اور خصوصاًمشرقی اور مغربی سرحدوں پر خطرات کے پیش نظر سیکورٹی کو زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ملکی دفاع پہلے اور اس کے بعد ترقی اس لیے سیکورٹی اور ملکی دفاع کے بارے میں غافل ہونے کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ ملک کے دفاع کو ہر چیز پر اولیت دی جائے۔ تاہم گزشتہ ستر سالوں کی کوتاہیوں کا ازالہ بھی ضروری ہے۔
البتہ اب پی ٹی آئی حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ آئی ہے جس نے خاص وعدہ پسماندہ علاقوں کی ترقی کا کیا ہے جس سے عوام موجودہ حکومت سے حقیقی تبدیلی کی توقع رکھتی ہے تاکہ پسماندہ علاقے بھی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوکر معاشی حوالے سے خوشحال ہوسکیں۔