گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی زیر صدارت کوئٹہ پیکج کے متعلق اجلاس ہوا، وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ ڈویلپمنٹ پیکج کوئٹہ شہر کو کھولنے اور معاشی سرگرمیوں میں اضافے کا منصوبہ ہے۔
شہر میں نئی سڑکوں کی تعمیر اور تجارتی مراکز کے پھیلاؤ سے معاشی اور تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا جس کا فائدہ عام آدمی کو پہنچے گا جبکہ شہر کی خوبصورتی اور شہری سہولتوں میں بھی اضافہ ہوگا، کوئٹہ پیکج کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کمشنر کوئٹہ ڈویژن عثمان علی خان نے اجلاس کو بریفنگ دی۔
انہوں نے جوائنٹ روڈ کی توسیع کے منصوبے کے فیز ون کی پیشرفت سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ 1.5کلومیٹر طویل روڈ عید کے فوراً بعد مکمل کرلی جائے گی جبکہ ایئرپورٹ روڈ کا توسیعی منصوبہ بھی عید کے بعد مکمل ہوجائے گا، انہوں نے جوائنٹ روڈ فلائی اوور کے مجوزہ منصوبے، سبزل روڈ کی تعمیروتوسیع سمیت سریاب کے علاقے میں سڑکوں کی تعمیر اور پیکج میں شامل دیگر منصوبوں کے بارے میں بھی بریفنگ دی، وزیراعلیٰ نے ہدایت کی سڑکوں کی تعمیروتوسیع کے منصوبوں کے لئے اراضی کے حصول میں علاقے کے لوگوں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
موجودہ حکومت اور خاص کر وزیراعلیٰ بلوچستان سے یہی توقع ہے کہ اس بار کوئٹہ کے علاقے سریا ب کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا کیونکہ سریاب کے مکین آج کے جدید دور میں بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔اس حوالے سے پہلے کبھی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی حالانکہ سریاب صوبائی دارالحکومت کی سب سے بڑی کچھی آبادی پر مشتمل علاقہ ہے،اس سے قبل بھی اس منصوبے کے حوالے سے سریاب کو شہری سہولیات فراہم کرنے کافیصلہ کیا گیا تھا اور یہ صوبائی پروجیکٹ تھا جس کے اخراجات صوبائی حکومت کو برداشت کرنے تھے۔
ماضی میں اکثریہ دیکھنے کو ملا ہے کہ صوبائی حکومت کی ترقیاتی بجٹ کو زیادہ تر ایم پی ایز اپنی ذاتی اسکیموں کے لیے لے جاتے تھے اور پھر دعویٰ کرتے تھے کہ یہ رقم عوامی فلاح وبہبودپر کوئی خرچ ہوئی لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں،روز اول سے ایم پی اے حضرات اس کو ذاتی فنڈ قرار دیتے آرہے ہیں۔
گزشتہ 35 سالوں میں صوبائی حکومت کسی ایک ایسی اسکیم کی نشاندہی کرے جو ایم پی اے فنڈ سے تعمیرہوا ہو، اس سے کتنے لوگوں کو روزگار ملا یا صوبائی حکومت کی آمدن میں کتنا اضافہ ہوا۔ اس میں دورائے نہیں کہ یہ سارے وسائل ضائع ہوگئے خصوصاََ گزشتہ 35 سالوں سے جب سے جنرل ضیاء الحق نے ان ایم پی اے حضرات کیلئے ترقیاتی فنڈمختص کیے تھے۔
اس لیے ضروری ہے کہ نہ صرف سریاب بلکہ پورے صوبے میں شہری سہولیات کی فراہمی کے منصوبے بنائے جائیں۔ گزشتہ دور میں مقامی حکومت اور میونسپل ادارے ملازمین میں صرف تنخواہیں بانٹتے رہے ہیں، صحت اور صفائی کیلئے کوئی رقم نہیں بچ سکی۔
بنیادی شہری سہولیات کی عدم دستیابی سے پورا بلوچستان ایک وسیع وعریض کچھی آبادی کا منظر پیش کررہا ہے۔سہولیات کی فراہمی کی ابتداء سریاب سے کی جائے تاکہ یہاں کی دس لاکھ پر مشتمل کچھی آبادی کو کچھ راحت مل سکے اور سریاب بھی شہر کے دیگر ترقی یافتہ علاقوں کے ہم پلہ ہوسکے۔ کوئٹہ کاعلاقہ سریاب جہاں مسائل سب سے زیادہ ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بلوچستان کے بیشتر سابق وزرائے اعلیٰ کی رہائشگاہیں بھی یہاں واقع ہیں۔
مسائل سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود اس علاقے کو نظر انداز کرنا انتہائی زیادتی ہے گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی کا اندازہ ان کے اپنے رہائشی علاقوں میں بنیادی سہولیات کے فقدان سے لگایا جاسکتا ہے۔ نئی حکومت ترجیحی بنیادوں پر کوئٹہ کے اس بڑی آبادی والے علاقے کو مسائل سے نکالنے کیلئے اپناکردار ادا کرے۔