|

وقتِ اشاعت :   May 30 – 2019

گزشتہ روز کابینہ اجلاس کے بعد میڈیاکوبریفنگ دیتے ہوئے معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کاکہناتھاکہ کچھی کینال کے فنڈز کے غلط استعمال کی رپورٹ ایف آئی اے کو دی گئی ہے،ملزمان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔دیکھا جائے تو کچھی کینال منصوبے کے متعلق بارہا نشاندہی کی گئی ہے کہ اس اہم پروجیکٹ میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہورہی ہے مگر اس پرسابقہ صوبائی حکومتوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔

ایک اندازے کے مطابق کچھی کینال پراب تک 65ارب روپے سے زائد رقم خرچ ہو چکی ہے لیکن اس کا پہلا فیز تاحال مکمل نہیں ہوسکا۔ پروجیکٹ سے جڑے ٹھیکیدار اور ڈائریکٹر یہ دعویٰ بھی کرتے رہے کہ کچھی کینال کاپہلا فیز مکمل ہوچکا ہے اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اس حصہ کواس وقت کے حکومت کے حوالے کرنے کی ناکام کوشش کی گئی مگر کرپشن کسی طرح بھی چھپ نہیں سکتی اور جھوٹ پر مبنی پہلا فیز مکمل ہونے کا دعویٰ اس وقت غلط ثابت ہوا جب ماہرین نے اس حصے کا معائنہ کیا تو وہ حیران رہ گئے کہ وہ مکمل طورپر غیر معیاری تعمیرات پر مشتمل تھا اور کسی طرح بھی یہ کام قابل اطمینان نہیں تھا۔

اس میں موجود تمام خامیوں کی نشان دہی کی گئی اور ٹھیکیدار اور پروجیکٹ ڈائریکٹر کو حکم دیا گیا کہ وہ ان حصوں کی دوبارہ تعمیر کریں لیکن افسوس عرصہ گزرگیا مگر بنیادی خامیاں دور نہیں کی گئیں۔کچھی کینال منصوبہ میں پہلا مرحلہ بگٹی قبائلی علاقے کے 80 ہزار ایکڑ زرخیز زمین کو سیراب کرنا ہے مگر جب تک اس کے اسٹرکچر پر سنجیدگی سے کام نہیں کیاجائے گا تعمیراتی کام ادھورا ہی رہے گا جس کی نشاندہی پہلے کی جاچکی ہے کہ پکی اور سیمنٹ سے تیار شدہ نہری نظام کو قبول کیاجائے ورنہ کچھی کینال بھی پٹ فیڈر کی طرح زرخیز زمینوں کو سیم اور تھور کا شکار بنا کر تباہ کر دے گا، جس سے رہی سہی معیشت بھی تباہ ہوجائے گی۔

کچھی کینال پر اب تک 65ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ ہو چکی ہے،ابتداء میں اس کا تخمینہ 50ارب روپے لگایا گیا تھا۔اس کی تعمیرمیں چونکہ بہت زیادہ دیر لگائی گئی اور جان بوجھ کر بیس سال کا عرصہ ضائع کردیا گیا اس لیے اب اس کا تخمینہ 130ارب روپے لگایاجارہا ہے۔

کچھی کینال کی تعمیر کا مطالبہ بلوچستان کے سابق گورنر غوث بخش بزنجو نے 1972ء میں بحیثیت صوبائی گورنر کیا تھا۔اگر کچھی کینال بیس سال سے پہلے تعمیر ہوچکا ہوتا تو بلوچستان کے عوام بیس سالوں میں اپنی زمینوں سے بہت ساری فصلیں حاصل کرچکی ہوتیں اور غربت میں کافی حد تک کمی آچکی ہوتی۔

بہرحال وفاقی کابینہ کے اس فیصلے سے امید پیدا ہوگئی ہے کہ بلوچستان کے ساتھ مکمل انصاف کیاجائے گا یہ بلوچستان کیلئے بڑی خوشخبری ہے کہ کچھی کینال کے فنڈز غلط استعمال ہونے پر رپورٹ ایف آئی اے کے حوالے کردی گئی ہے جو تحقیقات کے بعد ملزمان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے گی۔ بلوچستان کے عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے پسماندگی کا شکار ہیں جس کی بڑی وجہ کرپشن ہے اہم منصوبوں پر ہمیشہ ہاتھ صاف کیا گیا یا پھر اسے ملٹی نیشنل کمپنیوں نے لوٹا اور وفاقی حکومتوں نے اپنا حصہ بٹوراجبکہ صوبے کے عوام کے حصہ میں کچھ نہیں آیا۔

بلوچستان میں آج بھی اہم منصوبوں سے منافع کمایا جارہا ہے مگر صوبہ کو اس کا جائزحصہ نہیں دیاجارہا موجودہ وفاقی حکومت اس پسماندہ اور بدقسمت صوبہ کے معاملات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے دیگر منصوبوں کی جانچ پڑتال کرائے کیونکہ ایوان بالا میں خود موجودہ وفاقی وزراء نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بلوچستان میں اربوں روپے کرپشن کی نظر ہوچکے ہیں۔

لہٰذا اس حوالے سے پہلے بھی گزارش کی گئی ہے کہ تحقیقاتی کمیشن بنائی جائے جوکہ صوبائی حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل ہوجو وفاقی حکومت کے ساتھ ملکر بلوچستان کے اہم منصوبوں میں ہونے والی کرپشن کا سراغ لگائے تاکہ کرپٹ عناصر کو کیفرکردار تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں جاری منصوبوں کو کرپشن سے پاک کرکے قومی خزانے کو فائدہ پہنچانے کیلئے کارآمد بنایا جاسکے اور بلوچستان کو اس کے منصوبوں میں سے زیادہ حصہ دیاجائے تاکہ صوبہ میں ترقیاتی عمل میں تیزی آسکے اور عوام خوشحال ہوسکیں۔