|

وقتِ اشاعت :   June 2 – 2019

افغانستان کے مسئلے پر اول روز سے یہی زور دیا جارہا ہے کہ صرف بات چیت ہی سے اس کو حل کیا جاسکتا ہے مگر طاقت کے بے جا استعمال نے نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کو دہشت گردی کی لپیٹ میں لے لیا اور اس طرح امریکہ اور اس کے اتحادی جو اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے اس میں کوئی کامیابی نہیں ملی۔حالیہ مذاکرات کے حوالے سے بھی بہت سی آراء سامنے آرہی ہیں مگر فی الوقت یہ کہنا کہ روس میں ہونے والے مذاکرات نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں۔

شاید اس پر فریقین بھی مطمئن دکھائی نہیں دیتے، خداکرے کہ اس مسئلے کا حل جلد نکل سکے تاکہ افغانستان سمیت پورے خطے میں بدامنی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکے۔ گزشتہ روزطالبان اور افغانستان کی حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں ’زبردست پیش رفت‘ ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ محض کھوکھلا دعویٰ دکھائی دیتا ہے کیوں کہ ان مذاکرات میں افغان حکومت شامل نہیں تھی اور نہ ہی جنگ بندی کا اعلان ہوا۔قدامت پسند اسلامی عسکریت پسندوں نے ماسکو کے مرکز میں واقع پلش ہوٹل میں 2 روز سے زائد وقت قیام کیا جہاں انہوں نے متعدد افغان سیاستدانوں سے ملاقات کی جن میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی اور سابق جنگجو قائد عطا محمد نور شامل ہیں۔جاری کردہ مشترکہ اعلامیے میں فریقین کا کہنا تھا کہ انہوں نے ”پیداواری اور تعمیری“ مذاکرات کیے اور ممکنہ جنگ بندی سمیت مختلف معاملات مثلاً اسلامی نظام کی مضبوطی اور خواتین کے حقوق پر غور کیا گیا۔

اعلامیے کے مطابق ’دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی لیکن کچھ مسائل پر مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔خیال رہے کہ طالبان کابل حکومت کو امریکا کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں جنہیں ایک اور مذکرات سے علیحدہ رکھا گیا، لہٰذا یہ نا ممکن دکھائی دیتا ہے کہ مذاکرات سے کوئی لچک دار نتیجہ برآمد ہو۔واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے رمضان المبارک کے آغاز میں ملک بھر میں جنگ بندی کی پیشکش کی تھی جسے طالبان نے مسترد کردیا تھا۔

قبل ازیں جب عسکریت پسندوں کے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات تھے اس وقت امریکا نے بھی پر تشدد کارروائیاں کم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جسے طالبان نے رد کردیا تھا۔ماسکو میں ہونے والے مذاکرات روس کے دارلحکومت میں منعقد ہونے والا دوسرا اجلاس تھا۔جہاں دستار باندھے طالبان رہنماء تصاویر میں مضطرب نظر آئے کیوں کہ مغربی لباس میں ملبوس خواتین رپورٹرز ان سے انٹرویو کررہی تھیں۔

جہاں فریقین نے یہ دعویٰ کیا کہ ماسکو اجلاس ’بین الافغان‘ مذاکرات تھے وہیں افغان حکومت کے ساتھ ساتھ امریکا کی نمائندوں کی غیر موجودگی نمایاں تھی۔اجلاس کا آغاز افغانستان اور روس کے تعلقات کے 100 برس مکمل ہونے پر کیا گیا جس میں ابتدا میں روس میں موجود افغان سفیر کو تقریر کرنے کی اجازت دی گئی لیکن بعد میں منعقد ہونے والی تقریبات میں انہیں شامل ہونے سے روک دیا گیا جس کے بعد وہ سوئس ہوٹل کی لابی میں بیٹھ گئے۔

اب بھی طالبان کے مرکزی رہنما شیر محمد عباس ستنکزئی اس بات پر مصر ہیں کہ عسکری گروہ خلوص نیت کے ساتھ امن کا خواہاں ہے، ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قبضہ ختم ہونا چاہیے ہم امن چاہتے ہیں۔خیال رہے کہ جب سے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا ہے عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ ان کے خیالات میں کچھ تبدیلی آئی ہے بالخصوص خواتین کے حقوق کے حوالے سے جو 1996 سے 2001 تک جاری رہنے والے ان کے دورحکومت میں بری طرح کچلے گئے تھے۔

چنانچہ اب طالبان ایسا افغانستان چاہتے ہیں جہاں خواتین، مرد اور بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے حقوق کی ضمانت ہو تاہم وہ حقوق شرعی قوانین اور قبائلی روایات کے مطابق تفویض کیے جائیں گے۔