|

وقتِ اشاعت :   June 16 – 2019

ملکی سیاسی ماحول میں اچانک بہت بڑی تبدیلی دیکھنے کومل رہی ہے، پی ٹی آئی حکومت جب اپوزیشن میں تھی تو اس کی قیادت نے پہلے ہی عندیا دیا تھا کہ ملک سے چوروں، ڈاکوؤں کا خاتمہ کیاجائے گا۔

عوام کا پیسہ لوٹنے والوں کو جیل میں ڈالا جائے گا اور ان سے رقم واپس لیکر قومی خزانے میں منتقل کیاجائے گا۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے ملک میں کرپشن کے خلاف کمیشن بنانے کا اعلان بھی کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہمارا مقصد چوروں کو جیلوں میں ڈالنا ہے جنہیں کسی صورت نہیں چھوڑینگے اب کسی کو این آر او نہیں ملے گا کیونکہ ماضی میں این آراو دینے کی وجہ سے ملکی سالمیت کو نقصان پہنچایا گیا۔

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے اہم لیڈروں کی گرفتاری اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے مگر ان گرفتاریوں کے بعد حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی، کیا لوٹی ہوئی دولت کو قومی خزانے منتقل کیاجائے گا۔چونکہ یہ پہلی بار نہیں کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو جیل میں ڈالاجارہا ہے اس سے قبل بھی وزراء اعظم سمیت سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو جیل بھیجا گیا مگر اسے انتقامی تناظر میں ہی دیکھا گیا کیونکہ ان گرفتاریوں سے عوام کا مداوا تو کچھ نہیں ہوا بلکہ سیاسی ماحول میں حدت بڑھتی رہی اور اسی طرح دوسری جماعت اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے اپنے حریف جماعت کے لیڈران کو جیل میں ڈالتی رہی۔

اب چونکہ گزشتہ دوحکومتوں کے دوران یہ دیکھنے کو ملا کہ انہوں نے اپنی مدت پوری کی گوکہ اُس دوران حکمران جماعت کے وزراء اعظم کو کرپشن کیسز میں سزاملی اوروہ رخصت ہوئے البتہ ان کی حکومت تبدیل نہیں ہوئی ان کی جگہ جماعت کے دیگر عہدیدار منصب پر بیٹھے اور اس طر ح اپنی مدت پوری کرتے رہے یعنی جمہوری وسیاسی نظام تسلسل کے ساتھ چلتارہا۔

پاکستان تحریک انصاف بھی ایک منشور لیکر حکومت میں آئی ہے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے فریال تالپور کی گرفتاری کے بعد اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے سیاسی انتقام کا سلسلہ جاری ہے، میرے والد اور پھپو کو جیل میں ڈال دیا گیا مجھے فرق نہیں پڑتا، ہم اب پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک پر چادر اور چار دیواری کا خیال نہ رکھنے والے بزدل حکمران مسلط ہیں، یاد رکھیں آپ کے گھر میں بھی ماں، بہن بیٹی ہیں، آپ نے ہمیشہ حکومت میں نہیں رہنا۔ان کا کہنا تھا کہ نئے پاکستان اور مشرف کے پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

پیپلز پارٹی نے آمروں کا مقابلہ کیا ہے اس کٹھ پتلی حکومت کی کیا حیثیت ہے۔بلاول نے کہا کہ ہم چاہیں تو آسانی سے پی ٹی آئی حکومت گرا سکتے ہیں تاہم ہم ایسا نہیں چاہتے۔انہوں نے کہا کہ مشرف کی طرح آج کٹھ پتلی وزیراعظم نے بھی عدلیہ پر حملہ کیا ہے، اسکرپٹ سے ہٹ کر چلنے والے ججز کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، ہر ادارے کو دباؤ اور دھمکیوں سے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے سیاسی گرفتاریاں محض عوام کی توجہ موجودہ معاشی صورتحال سے ہٹانے کے لئے کی گئی ہیں۔اب بلاول بھٹو زرداری کا حالیہ ردعمل جو سامنے آیا ہے خاص کر حکومت گرانے کے حوالے سے تو ایسا لگتا ہے پیپلزپارٹی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ملکر ایک لائحہ عمل طے کرتے ہوئے اِن ہاؤس تبدیلی لانے کے فارمولے کے پلان پر کام کرے گی لیکن فی الوقت اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ایسی ہم آہنگی دکھائی نہیں دے رہی کہ پیپلزپارٹی حکومت گرانے میں کامیاب ہوسکے۔

بہرحال عوام کا اول روز سے یہی مطالبہ رہا ہے کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے اور اس کا دائرہ کار پھیلاتے ہوئے ان تمام افراد کے خلاف کارروائی کی جائے جو اہم عہدوں پر رہ کر کرپشن کی ہے۔ان میں بعض ایسی سیاسی شخصیات ہیں جو آج پی ٹی آئی میں بھی شامل ہیں اگر کسی کیلئے نرم گوشہ رکھا جاتا ہے تو احتساب کی شفافیت پر سوال اٹھیں گے اور اسے سیاسی انتقامی کارروائی سمجھی جائے گی کیونکہ عوام چوراورلٹوروں کا احتساب اور رقم کی واپسی چاہتی ہے۔