پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت متعدد بار افغانستان کا دورہ کرچکی ہے جس میں افغانستان کی سیاسی وعسکری قیادت کے ساتھ پُرامن افغانستان پرزیادہ دور دیا گیا، پاکستان نے ہمیشہ خطے کے امن خصوصاً افغانستان سے تعلقات کو زیادہ اہمیت دی اورمذاکرات کے حوالے سے پہل کیا۔پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے حوالے سے دوٹوک مؤقف اپنایا خاص کر ایک بات واضح کی ہے کہ حکومت پاکستان کسی بھی طرح سے افغانستان میں بھارت کا کوئی کردار قبول نہیں کرے گامگر اس دوران سب نے دیکھا کہ امریکا اور اس کے اتحادی بضد رہے کہ افغان خانہ جنگی کے خاتمے میں بھارت کا ایک موثر کردار ہونا چاہئے۔
البتہ بھارت کا کردار بھی سامنے ہے کہ اس نے اپنی مسلح افواج افغانستان روانہ نہیں کیں جبکہ افغانستان کی معاشی ترقی اور بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر کے لئے امریکانے ہر وقت بھارت کو آگے رکھا، بھارت معاشی منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کرکے اپنے تعلقات کو مضبوط تر بنا رہا ہے لیکن افغان سیکورٹی کے حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے کو آج بھی تیا ر نہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ دنیا کے سامنے یہ ثبوت رکھے کہ بھارت افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے لیکن بنیادی معاملہ تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہے اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو افغانستان اس بات پر آمادہ نظر نہیں آتا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان سے تعاون کرے۔ افغانستان کی جانب سے سرحد پر چیک پوسٹوں پر حملے بھی کئے جاتے رہے جس کی وجہ سے قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا۔
افغانستان کے معاملے پر امریکہ نے ہر وقت پاکستان پر اپنا دباؤ بڑھائے رکھا بلکہ پاکستان کے خلاف افغانستان اور بھارت نے مشترکہ محاذبھی کھولاجس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی پشت پناہی امریکا پوری قوت کے ساتھ کرتارہا ہے۔شاید یہی وجوہات ہیں کہ افغانستان پاکستان سے تعاون پر کوئی توجہ نہیں دیتا اور نہ ہی اس کی دلچسپی ہے کہ وہ بارڈر منیجمنٹ میں تعاون کرے۔
حکومت پاکستان نے امن کو برقرار رکھنے کیلئے مجبوراً یک طرفہ طورپر اقدامات اٹھاتے ہوئے سرحد پر باڑ لگانااور سرحدی چوکیوں کو مستحکم کرنا شروع کیا اس کے علاوہ سرحدی علاقوں میں گشت کو بڑھایاتاکہ خطے کی صورتحال میں بہتری آسکے۔ بہرحال ماضی میں افغانستان نے بہتر تعاون نہیں کیا جس کی وجہ سے بدامنی بڑھتی گئی اورکشیدگی میں اضافہ ہوا۔
حکومت پاکستان آج بھی اپنی تمام تر کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں کہ افغانستان میں دیرپا امن قائم ہو جس کیلئے ہمیشہ ثالثی کا کردار ادا کرنے میں پیش پیش رہا ہے مگر ایک بات واضح کیا ہے کہ وہ کسی اور کی جنگ کا حصہ اب نہیں بنے گا کیونکہ پاکستان نے اس جنگ میں بہت زیادہ نقصانات اٹھائے ہیں باوجود اس کہ پاکستان پر الزام تراشی بھی کی گئی مگر پاکستان نے فراخدلی کے ساتھ لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہو جس نے اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو پناہ دی ہو۔
گزشتہ دنوں افغان امن کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں افغان اور پاکستانی حکا م نے شرکت کی، اس موقع پر ایک بار پھر پاکستان نے افغان مسئلے پر بھرپور کردار ادا کرنے کے عزم کا اظہار کیا، افغان امن کانفرنس کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان کئی دہائیوں سے افغان پناہ گزنیوں کی میزبانی کیساتھ ساتھ افغان مسئلے کے حل کیلئے بھی کرداراداکررہاہے، پرامن اور خوشحال افغانستان خطے کے مفاد میں ہے۔
پاکستان پرامن اورمستحکم افغانستان کی حمایت کرتاہے، افغان بحران کی وجہ سے پاکستان بہت متاثرہوا، دونوں ملکوں کے دشمنوں نے پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ مفادات کونقصان پہنچایا، موجودہ کانفرنس افغان امن کیلئے کلیدی کردار ادا کریگا۔پاکستان افغانستان اوردیگرہمسایہ ممالک سے پرامن تعلقات چاہتا ہے، پاکستان اورافغانستان دونوں تنازعات سے عدم استحکام کا شکار ہوئے، پرامن افغانستان ہی پاکستان کے قومی مفاد میں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاک افغان تعلقات پر پراپیگنڈہ یا منفی تاثرپھیلانے نہیں دیں گے۔
کیونکہ ایک دوسرے کے مابین عدم اعتماد کی فضاکسی ملک کے مفاد میں نہیں، دونوں ممالک اپنی اپنی زمین ایک دوسرے کیخلاف استعمال نہیں ہونے دینگے۔ یقینا یہ کانفرنس انتہائی اہمیت کا حامل ہے مگر ماضی کے روش کو افغانستان کو ترک کرنا ہوگا خاص کر اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا ہوگا اور ساتھ ہی سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا تاکہ دہشت گرد سرحد پار کرکے شرپسندی نہ پھیلائیں کیونکہ اس سے قبل متعدد بار سرحد پار دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوکر بڑی بڑی کاروائیاں کرچکے ہیں جس کے باعث ہزاروں کی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔
اسی بدامنی کے پیش نظر پاکستان نے سرحد پار باڑ لگانے کا کام شروع کیا تاکہ دہشت گردی کے واقعات کو روکاجاسکے افغانستان اس حوالے سے تعاون کرے تو یقینا جو عدم اعتماد کی فضا ہے وہ ختم ہوجائے گی کیونکہ دہشت گرد کبھی نہیں چاہتے کہ خطے میں امن قائم ہو اور پاک افغان تعلقات میں بہتری آئے اس لئے افغان قیادت کو اس میں کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے تمام معاملات کو حل کیاجاسکے۔
افغان صدر اشرف غنی 27 جون کو پاکستان آرہے ہیں جس میں دونوں ممالک کے سربراہان خطے کی صورتحال اور بہتر تعلقات کے حوالے سے بات چیت کرینگے جوکہ خطے میں امن اور خوشحالی کیلئے انتہائی اہم ہے۔