|

وقتِ اشاعت :   September 3 – 2019

کوئٹہ کے سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے ہوئے نظر ایک تیر نما سائن بورڈ پر پڑتا ہے بورڈ پر ”PEMRA“ لکھا ہوا نظر آتا ہے دوست سے پوچھتا ہوں یہ ادارہ صوبے میں کرتا کیا ہے؟ تھوڑی دیر کے لیے وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے پھر بولنے لگتا ہے”سمجھ تو مجھے بھی نہیں آتا“۔ بہرکیف کام ہو بھی یا نہ ہو ہمیں اب تک اس سے پالا نہیں پڑا۔ اتنا تو ضرور سمجھتے ہیں کہ ان اداروں کے احکامات سے ہماری روز مرہ زندگی یا یوں کہیے کہ بلوچستان کا حقیقی عکس اور شناخت متاثر ضرور ہوا ہے۔

دوست کے توسط سے اطلاع ملی کہ ایک قومی ادارے نے بک ریڈر ممبرشپ کا اعلان کیا ہیممبربننے کے بعد آپ آدھی قیمت پر کتابوں کے خریدار بن پائیں گے۔ اعلان کو غنیمت جاننا۔ حصولِ ممبر شپ کے لیے نیشنل بک فاؤنڈیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہاں بیٹھے ایک نوجوان نے آنے کی وجہ دریافت کی، مقصد بیان کیا تو کہنے لگا کہ رجسٹریشن کا سلسلہ تاحال شروع ہی نہیں ہوا۔ تو ویب سائیٹ پر ممبرشپ کا اعلان کوئی اور ادارہ کر چکا ہے؟ جواب آیا وہ ممبرشپ صرف دکانداروں کے لیے ہے۔ نیٹ پہ دیکھ لیں وہ ریڈرز کے لیے ہی تھا۔ جواب آیا کمپیوٹر نہیں۔ فارم فوٹو کاپی کریں، فار م پرنٹ نہیں ہے۔ لفظ ”نا“ کا مجموعہ پا کر اس بلڈنگ کی موجودگی پہ ترس آیا جس پر بڑے سائز میں لفظِ ”قومی“ لکھا ہوا تھا۔

تو جان گئے جناب،یہ بلوچستان ہے وفاق کے اعلانات مہینوں سالوں کی مسافت کے بعد ہی یہاں پہنچ پاتے ہیں جب پہنچتی ہیں تو ان کا ذائقہ ختم ہوچکا ہوتاہے۔ چند سال قبل جب نیشنل بک فاؤنڈیشن نے ممبر شپ ریڈرز کا اعلان کیا اس وقت اسلام آباد میں تھا حصولِ ممبر شپ کے لیے دفتر کا چکر لگایا تو ممبرشپ کارڈ دس منٹ کے اندر تیار ہو کر ہاتھ آیا۔ مگر یہاں معاملہ مختلف تھا مجاز آفیسر غائب، فارم غائب، کتابیں غائب، ممبر شپ کا حصول دس منٹ نہیں دس دن کا۔ 20منٹ کی موجودگی میں ممبرشپ کے حصول کے لیے دس اور نوجوان آئے، حسبِ معمول عملے نے وہی دکھڑا سنا کر انہیں واپس بھگایا۔ مگر میں کھڑا منظر کشی کرتا رہا۔وہاں پڑی بے ترتیب کتابوں کا جائزہ لیتا رہا کتابوں کو صفائی کا منتظر پایا۔

نوجوانوں کی آمد اور ریڈر ممبرشپ کے حصول کے لیے درخواستوں کی مانگ اس جانب اشارہ کر رہا تھا کہ بلوچستان کا نوجوان طبقہ پڑھنا چاہتا ہے مہنگی کتابوں کے بیچ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی سالانہ رعایت سے فائدہ اٹھا کر وہ علمی پیاس بجھانا چاہتا ہے۔ مگر اس کے باوجود حصولِ کتاب یا رعایت کے درمیان رکاوٹیں ان کی خواہشات کو ادھورا کر رہی تھیں۔ نوجوان جو اپنا قیمتی وقت نکال کر یہاں آئے تھے ان کی اس مجبوری سے بک فاؤنڈیشن کا یہ عملہ انجان رہا۔

کسی زمانے میں بلوچستان یونیورسٹی کے احاطے میں ایک قومی ادارہ”مقتدرہ قومی زبان پاکستان“ کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ فروغِ اردو کے ساتھ ساتھ یہ ادار ہ سیاسیات، ادبیات، نفسیات، عمرانیات، جغرافیہ، معاشیات، ابلاغیات، فنون، حیاتیات، فلسفہ، سائنس و ٹیکنالوجی غرض اہم موضوعات پر بہت سی اہم کتابوں کا اجراء کر چکا تھا۔ بلوچستان بھی بے شمار کتابوں کی صورت میں زیرِ موضوع آیا۔ یونیورسٹی کے طلبا اہم کتابیں آسان قیمت پر دستیاب پاتے تھے۔ وفاق نے صوبے کو قومی ادارتی کتابجاہ سے محروم کیا، صوبائی دفتر کی بندش سے نوجوان اہم موضاعاتی کتابوں سے محروم ہوئے۔ کوئٹہ میں کتابوں کے حصول کے لیے نوجوان سرگرداں رہتے ہیں اہم کتابیں جو کراچی، لاہور یا اسلام آباد میں آسانی سے مل جاتی ہیں وہ ڈھونڈنے سے بھی یہاں نہیں مل پاتیں۔

اب اگر یہ کہ بلوچستان میں کتابوں کی خریداری کم ہوگئی ہے یا یہ کہ مطالعے کا رجحان ختم ہوچکا ہے اسی کو بنیادبنا کر ادارے ختم کیے جاتے ہیں یا انہیں کسمپرسی کی حالت میں رکھا جاتا ہے تو بس اتنی سی گزارش ان اداروں کے لیے یہ کرتا چلوں کہ کتابوں کی خریداری اور کتاب دوستی کا عملی نمونہ دیکھنا ہے تو سیلز اینڈ سروس جائیے، یونیورسٹی بک پوائنٹ چلے جائیں یا یہ کہ کتب میلوں کا رخ کریں تو وہاں نوجوانوں کوکتاب خریدتے دیکھ کر آپ کو اپنے فیصلوں پر شاید نظرثانی کا موقع ملے۔

اور دوسری بات یہ کہ قومی ادارہ ہے قومی ادارے منافع بخش ہونے کے لیے ترتیب نہیں پاتے بلکہ مطالعے کا رجحان کس قدر زیادہ ہو لوگ تحقیق و تخلیق کی طرف کس طرح چلے جائیں اسے بنیاد بنا کر ہی ادارے ترتیب پاتے ہیں نہ ہی آپ کے آنے کا سبب معلوم ہوا اور نہ جانے کا۔۔ سبب تک رسائی ہو ضرور بتائیے گا۔

بلوچستان کو جب صوبے کا درجہ ملا۔ نیپ حکومتعمل میں آئی مگر چند مہینوں کا مہمان رہی۔ شورش کی فضا قائم ہوئی بلوچ سیاسی رہنماؤں کا مؤقف ریڈیو کابل اور آل انڈیا ریڈیوسے بلوچستان کے عوا م تک صاف پہنچ پا رہا تھا وفاق نے اپنا مؤقف کمزور پایا، صوبے تک وفاق کا مؤقف بروقت نزول کیسے پائے یہ کام ریڈیو پاکستان کراچی، لاہور یا اسلام آباد کی کمزور لہریں نہیں کر پا رہی تھیں 1974کو کوئٹہ سے پچیس میل دور ”یارو“ کے مقام پر ایک سو پچاس کلوواٹ کے شارٹ ویو کا وسیع رینج کا ریڈیو ٹرانسمیٹر اور کوئٹہ میں پائلٹ ٹیلی ویژن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ افتتاح وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں ہوا۔ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے حکومتی پالیسی، پبلسٹی اور پروپیگنڈے کا سلسلہ شروع ہوا لوگ بور نہ ہوجائیں اس کے لیے انٹرٹینمنٹ پروگرامز شروع کیے گئے۔

لوگوں کا حصول انٹرٹینمنٹ ہی رہا،ڈرامے، گانے، علاقائی پروگرام پیش کیے جانے لگے لوگ ان سے محظوظ ہوتے رہے۔ بعدِ ایام سریاب میں واقع ریڈیو کا بوسٹر جب خراب ہواتو لہروں کی رسائی بلوچ بیلٹ تک ممکن ہی نہ ہو پائی یوں تین دہائیوں کا ناطہ ٹوٹ گیا۔ بس لوگوں کے پاس یادیں ہی رہ گئیں۔حکومت کے پاس پبلسٹی اور پراپیگنڈے کے دیگر ذرائع آگئے سامعین کو انٹرٹینمنٹ کرنا مقصود ہی نہیں رہا یوں یہ سلسلہ اپنی موت آپ مر گیا۔ غالب روڈ کوئٹہ پر واقع ریڈیو اسٹیشن جانا ہوا،ملاقات پروڈیوسر اور سابقہ پروگرام ”آدینک“ کے کمپئیر راشد اشرف سے ہوئی۔ بحالی پر بات ہوئی کہنے لگے بلوچی پروگرام ہوتے تو ہیں مگر انہیں بلوچ بیلٹ میں نہیں پشتون بیلٹ میں سنا جاتا ہے۔

بی بی سی اردو سروس نے دوپہر کے پروگرام ”نیم روز“ کی نشریات دوبارہ بحال کرنے کا اعلان کیا توخیال آیا کہ بی بی سی اردو کو مرا ہوا پروگرام یاد آیا مگر ریڈیو پاکستان کوئٹہ جو زبانوں کی ترویج کر رہا تھا کے منتظمین کو یہ خیال کیوں کر نہیں آیا۔ اب اگر سروے کیا جائے تو ایسے کتنے لوگ ہوں گے جو یہ کہنے پر آمادہ ہوجائیں کہ ریڈیو پاکستان کا علاقائی نشریات اب بھی سنا جا سکتا ہے۔ یہی حال پاکستان ٹیلی ویژن کا ہے۔ بلڈنگ دیکھ کر خیال آتا ہے کہ خاکہ ہالی ووڈ کے کسی بڑے فلمی اسٹوڈیو کا چرایا گیا ہے مگر اندر چلا جائیتو کھوکھلا ہی نظر آتاہے۔پروگرام، ڈرامے، خبروں کا معیار بالکل گر چکا ہے۔ فنکار پیدا نہیں ہو رہے۔ ٹیکنالوجی وہی پرانا۔ کیمروں کے اندر جھانکنے سے تصویر بوسیدہ ہی نظر آتاہے۔

ایک بار کسی لائبریری جانا ہوا تو لائبریرین کو اکیلا بیٹھا خیالوں میں گم پایا،ہماری گفتگو نے اسے گہری سوچ سے نکال کر ہماری دنیا میں لایا پہلے تو انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا جب ہاتھ ملایا تب انہیں ہماری موجودگی کا یقین آیا۔ دلی طور پر خوش ہوا جب تک بیٹھے رہے بیچارہ غیبت ہی کرتا رہا لوگ پڑھتے نہیں ہیں، لائبریری سنسان ہے، بیٹھے بیٹھے بور ہو جاتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ جانے کی باری آئی تو مقصد کا خیال آیا۔ الماری کے اندر جھانک کر مطلوبہ کتاب ڈھونڈتارہا، مطلوبہ کتاب تو ہاتھ نہیں آیا البتہ بوسیدہ کتابوں اور ر مکھڑی کے جھالوں کی دوستی کو قابل رشک پایا۔

بلوچستان شعور کے جس زینے پر چڑھنا چاہتا ہے اس کے آگے رکاوٹیں حائل ہیں۔ نوجوان کتابوں کا حصول چاہتے ہیں اداروں کے ساتھ منسلک رہنا چاہتے ہیں مگر ان کے راستوں میں جگہ جگہ کانٹے ہیں۔ بڑی بڑی عمارتیں ہیں ڈھانچوں کے نمونے ہیں مگرسب کھوکھلے ہیں۔ ان کا کھوکھلا پن ختم کیا جائے اس کے لیے صوبائی حکومت سے نہ تو گلہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مطالبہ کیا جا سکتا ہے بیچارہ اپنا بجٹ مجبوری کے پیش نظر سیکورٹی پر خرچ کرتا ہے۔

مزید یہ کہہ کر اس پر بوجھ ڈالا ہی نہیں جا سکے گا کہ بحالتِ غربت اگر حکومتی موت واقع ہوجائے تو الزام پھر صوبے پر ہی آجائے گا۔ وفاق کو بھی قصوروار ٹھہرایا نہیں جا سکتا کہ صوبے اور وفاق کا فاصلہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ جو ڈھانچہ کراچی سے دِکھ نہیں پاتا تھا اب بھلا اسلام آباد کی خوردبین سے کیسے دِکھ پائے گا۔ قصوروار اپنی آنکھوں کو ہی ٹھہراتا ہوں جو اس طرح کی بے معنی عنوانات سے دماغ کو ہلچل مچانے پر آمادہ کراتا ہے۔