|

وقتِ اشاعت :   September 13 – 2019

کوئٹہ: سابق سیکریٹری فنانس بلوچستان اور ماہرمعاشیات محفوظ علی خان نے آزادی ویب نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک منصوبے کی تفصیلات احسن اقبال نے کبھی بھی کسی کو نہیں بتائی جس کا سب سے بڑانقصان بلوچستان کو ہوا اور ہماری صوبائی حکومتوں نے بھی کبھی اپنے منصوبوں کے معاہدوں کی تفصیلات نہیں پڑھی جس کی وجہ سے ہمیں منافع بخش منصوبوں سے فائدہ کی بجائے نقصان اٹھاناپڑا۔

سیندک سے آج بھی کمپنی تمام ذخائر کو ریفائنری کے بغیر لے جارہی ہے جس سے وہ کاپر اور سونا جو بھی نکل رہا ہے اسے لیکر جارہی ہے کیونکہ ہمارے یہاں معاہدوں میں کمزوریاں اور حکمرانوں کی معاہدوں کو نہ پڑھنے کی وجہ سے فائدہ غیرملکی کمپنیاں اٹھارہی ہیں۔ بلوچستان کے منصوبوں میں معاہدوں کے دوران ماہرین پر مشتمل ٹیم سے رجوع کرنا ضروری ہے تاکہ ماہرین قانونی، تیکنیکی اور معاشی پہلوؤں کاجائزہ لے سکیں کہ ہمیں اس سے نقصان تو نہیں ہورہا۔

ریکوڈک ہمارے سامنے ایک مثال ہے جس میں فرد واحد نے دستخط کئے اور اس کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے معاہدے میں یہ بھی کہہ دیا کہ 25 فیصد شیئر بھی دینگے جوکہ دینا نہیں چاہئے تین سال کا یہ معاہدہ چلتا رہاسیندک کا بھی معاملہ اسی طرح ہی ہے کہ وفاق سے کسی نے نہیں پوچھا کہ معاہدہ کس بنیاد پر کیا اور بلوچستان کیلئے 2 فیصد کیوں رکھا گیاعالمی قوانین اور مائننگ رولز کو دیکھا گیا کہ نہیں، منصوبوں میں ہمیں ہم آہنگی کو بہتربنانا چاہئے، گیس سے ہمیں تین قسم کی آمدنی ملتی ہے۔

وفاقی حکومت ہمارے لئے اسے جمع کرتی ہے پھر اپنی چارجز کی کٹوتی کے بعد رقم ہمیں دیتی ہے اس تمام صورتحال میں وفاق صرف ایک ایجنٹ کاکام کرتی ہے، المیہ یہ ہے کہ وسائل ہمارا پیسے ہمارے وزیراعظم کی سطح پر آکر ایک شخص کہتا ہے کہ ہم نے بلوچستان کو تین ارب روپے کا ایڈیشنل اضافی گرانٹ دیا افسوس کا مقام ہے کہ سیاسی طور پر یہ اخلاقیات بھی نہیں ہے کہ یہ صوبہ کا اپنا پیسہ ہے جسے دیاجارہا ہے۔

اسے تسلیم کیاجائے اور منافع کے ساتھ یہ رقم ہمیں حق کے طور پر دیتے۔ جب میں گیس کا 15 سال کی تفصیلات نکالی تو اس میں ایک سال کی آمدن صفر تھی جس پر مجھے حیرانگی ہوئی کہ سوئی بندہوچکا ہے یا اس میں گیس کا ذخیرہ ختم ہوچکا ہے اگر آپ نے ایک سال کی آمدن نہیں دی تھی تو دوسرے سال دگنا آمدن دینی چاہئے اب یہ ایک سال کہ تین ارب روپے معلوم نہیں کہاں غائب ہوگئے، گیس پر میں نے اپنا ریسرچ کیا ہے۔

کہ اب تک بلوچستان کو اس میں سے صرف 7 ٹریلین روپے جبکہ وفاق کو 71 ٹریلین روپے ملے ہیں۔بلوچستان کو صنعت اور کنزیومر کیلئے انرجی نہیں ملی ہے۔بلوچستان نے 85 تک اپنی گیس کو چولہے اور فیکٹریوں میں دیکھا تک نہیں تھا۔ریکوڈک کے ذخائر کے متعلق جب ٹھیتان کاپر کمپنی نے تفصیلات بتائی تو عالمی سطح پر اس کے شیئرزکی اہمیت عالمی منڈی میں بڑھ گئی،پہلے ہی معاہدے پر ہم نے کمپنی کو معاہدے میں ریکوڈک کے 25 فیصد شیئرز خریدنے کا کہہ دیاتھا۔

اب اس کمپنی کواگر فارغ کرنا پڑے گا وہ تمام قرضہ سود سمیت اسے ادا کرنا پڑے گااس کے بغیر کوئی فارغ نہیں کیاجاسکتاکیونکہ معاہدے میں اتفاق کیا گیا ہے کہ ہماری طرف سے آپ قرض اٹھالیں۔سی پیک کے متعلق ہمارے پاس دو رائے پائی جاتی ہے کچھ حلقے یہ کہتے ہیں کہ چین آئے گا تو ہم کالونی بھی بدل جائینگے جبکہ دوسری جانب یہ کہاجاتا ہے۔

کہ چین کی آمد سے ہمارے یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی مگر راستہ درمیانہ ہوتا ہے دیگرممالک ہمارے سامنے مثال ہیں کہ وہاں ملکی باشندوں سے غیرملکی زیادہ ہیں مگر انہوں نے اپنے قوانین اتنے سخت کئے ہیں کہ کوئی غیرملکی ہِل نہیں سکتا۔دوممالک ایران اور چائنا انتہائی شارپ ہیں انہوں نے ہر شعبہ میں ماہرین رکھے ہوئے ہیں مگر ہمارے یہاں لوگ چائنا جانے کے بڑے شوقین ہیں کہ تاکہ وہاں جاکر سیر سپاٹے کریں اور پھر معاہدوں پر دستخط کرکے آجائیں، میں نے ایسے بہت سے معاہدے دیکھیں ہیں۔

کہ جس پر تحریری طور پر ہمیں کرپٹ کہاگیا ہے،ایک ڈونرایجنسی نے ہمارے متعلق معاہدے کے اندر انتہائی منفی چیزیں لکھی ہیں ہمارے یہاں کے سیاستدان اور بیوروکریسی کرپٹ ہیں اور اس پر دستخط بھی ہمارے سیاستدانوں اوربیوروکریٹس نے ماشاء اللہ دستخط بھی کئے جس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔

کہ ہم معاہدوں کوبغیر پڑھے دستخط کرتے ہیں۔جب تک ہم بہترین پالیسی نہیں بنائینگے کسی صورت ہم معاشی اہداف حاصل نہیں کرینگے حکومتوں کو سنجیدگی اورمستقل مزاجی کے ساتھ معاہدے کرنے چاہئے کیونکہ ایک حکومت جاتی ہے تو دوسری حکومت اس کے تسلسل کو بہتر انداز میں آگے بڑھائے۔