|

وقتِ اشاعت :   October 25 – 2019

معاشرے میں جھوٹ نے اپنا وہ مقام بنا لیا ہے کہ سچ کان پکڑ کر رہ جائے۔ نفسیاتی اجزا ء کو ملا کر ایسے ایسے پراڈکٹ تیار کیے جاتے ہیں کہ آدمی دھنگ رہ جائے اور جھوٹ کو سچ ماننے پر مجبور ہو جائے۔ زمینی حقائقکوچھپانے کے لیے مقتدر حلقوں نے جو فارمولہ تیار کیا ہے اس سے المناکیوں، مجبوریوں، لاچاریوں کے بھنور میں پھنسا بلوچستان تعلیم کے میدان میں اپنی ناکامی کا اعتراف تو نہیں کر پا رہا مگر مشاہداتی نگاہوں سے جال جو بچھایا گیا ہے اس کا جائزہ لیا جائے تو کہانی کھل کر سامنے آتی ہے۔

شعبہ تعلیم کو مریض قرار دے کر جس ایمرجنسی کا نفاذ حکومت کر چکی ہے اس کا عملی مشاہدہ زمین پر نظر نہیں آرہا۔ بدقسمتی کی ان لکیروں کو اپنے ماتھے پر سجائے بلوچستان کو اغیار اس کے اپنوں کے ہاتھوں سے نوچ کر کھا رہے ہیں مگر مجال ہے کہ کوئی ان کا نام لے۔ اس سے بڑی مضائقہ خیز بات کیا ہو سکتی ہے کہ موجودہ کابینہ میں شامل وزیراعلیٰ نے اپنا مشیر تعلیم ایک ایسے شخص کو چنا ہے جسے نہ ہی ڈھنگ سے بات کرنی آتی ہے اور نہ ہی مسائل کا ادراک ہے اور نہ ہی کوئی وژن اور پلان۔

آفس کے گرد لوگوں نے ایسا گھیرا ڈالا ہوا ہے کہ بندہ دم بخود رہ جائے کہ مشیرِ تعلیم ہیں یا کہ کسی خیراتی ادارے کا سربراہ۔پورا سسٹم آپ کے سامنے ہے نظام ہے کہ ایسا بگڑا ہوا، دیکھنے والا آنکھیں بند کرکے بھاگ جائے۔ مگر جس زمین کے ساتھ آدمی کی جڑت ہو وہ بھاگ نہیں سکتا۔ اس نظام نے سب کو اپنے شکنجے میں ایسے کس کر کے رکھ دیا ہے کہ سیدھا آدمی بھی ٹیڑھی ہو کر بات کرنے پر مجبور ہوجائے۔ بات ہو رہی ہے تعلیم کی۔ علاقے کا سکول چار سال سے بند پڑا ہے۔ بند سکول کو کھولنے کی ذمہ داری کس کی ہے محکمہ تعلیم کی۔ مگر محکمہ تعلیم کے خدمت گزار بیچارے حکام کی جی حضوری میں اتنے مصروف ہیں کہ انہیں نظام کو ٹھیک کرنے کا خیال نہیں رہتا۔

وہی نظام جو انگریزوں کے دور سے چلا آرہا ہے جوں کا توں اب بھی برقرار ہے نہ کوئی پالیسی اور نہ کوئی پالیسی ساز۔ پالیسی کون بنائے اور اسے لاگو کون کرے۔ اس پر سوچنے کو کوئی تیار نہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا بند سکول کس طرح کھل جائے اس کا پورا خاکہ تیار کرکے مشیر تعلیم کے سامنے رکھ دیا۔ مشیر تعلیم نے اس ڈاکٹر کی مانند جسے نہ مرض کا پتہ اور نہ مریض کی حالت کا علم، دوائی لکھ دی۔ ارے محترم کہانی کا لب لباب تو جان لیں۔ مسئلہ کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے چند جملوں کا سہارا لے کر مشیر صاحب کے سامنے پیش کر دیا۔ مشیر صاحب نے پیغام سیکرٹری کے نام لکھ ڈالا۔ وہ دن اور آج کا دن نہ سیکرٹری ہاتھ آیا اور نہ ہی مسئلہ حل ہوا۔ ضلعی آفیسر تعلیم تک بات پہنچا دی۔

موصوف کا رویہ یوں تھا جیسے انتظامیہ کے کسی سپاہی کا۔ سوچتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو جنہیں سپاہی ہونا چاہیے،نہ جانے نظام نے انہیں تعلیم کے معزز منصب پر کیوں بٹھایا۔اسکول ہے عبدالستار گوٹھ جھاؤ۔ جو تعلیمی ایمرجنسی کے چھتری تلے گزشتہ چار سالوں سے بند پڑا ہے۔ علاقے میں ایسی صورتحال پیدا کی جا چکی ہے کہ مجال ہے لوگ اس پر آواز اٹھائیں،بھلا آواز اٹھائیں بھی تو کیسے، شعور کے زینے پر ابھی تک اہلِ علاقہ چڑھ نہیں پایا۔ کیسے چڑھ پاتا تعلیم جو انہیں دستیاب نہیں۔

بند سکول کا کھلا دروازہ اس بات کی نوید سناتا ہے کہ سکول کبھی بھی بند نہیں ہو پایا ہے مگر سکول کا اندرونی منظرنامہ پورے سسٹم کو افسردہ کر دیتا ہے۔ چار سالوں میں سکول کی بندش نے جب تعلیم کے دروازے بند کیے تو اس کی جگہ مدرسے نے لے لی۔ حالیہ دنوں جب علاقہ کا سطحی سروے کیا گیا تو پانچ سال سے لے کر دس سال کے ایسے بچے اور بچیوں کی تعداد 152 نکلی جو تعلیم سے محروم ہیں۔ اب سوچتا ہوں کہ اس کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے اور ایسے علاقوں سے استاد، ڈاکٹر اور دیگر شعبہ جات کے ماہر کیسے پیدا ہوں۔ایک ایسا نظام جس میں سیکرٹری سے لے کر ضلعی آفیسر تعلیم تک،سب جی حضوری میں اور اپنی سیٹ کو بچانے کی تگ و دو میں لگ جائیں بھلا وہاں نظام نے کس طرح ٹھیک ہونا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ محکمہ تعلیم سے وابستہ تمام ذمہ داران و سربراہان کے بچے بھی انہی سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ہوں۔

مگر وہ اپنے ہی بنائے ہوئے نظام سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ بچوں کو وہاں داخل نہیں کرواتے۔ اپنے بچوں کو اچھے اچھے نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوا رہے ہیں۔ رہی بات غریب کے بچے کی وہ جانے اس کا خدا جانے۔ پانی جب نیچے سے لے کر اوپر تک گدلا ہوجائے تو اس گدلے پانی کو صاف کرکے پیا جاتا ہے۔ تعلیمی نظام گدلا ہے۔ تعلیمی ایمرجنسی کے نام پر جو شو چلایا گیا تھا وہ بری طرح فلاپ ہو چکا ہے مگر اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ جس سکول کی بات کر رہا ہوں وہ 1987 میں بنا تھا۔

پہلے استاد محمد صالح تھے جس نے سکول کا چارج سنبھال کرپڑھانے کا آغاز کیا تھا کہانی کا آخری کردار ماسٹر عبدالرشید تھا جس نے جنوری 2016میں سکول کو الوداع کہا،اس کے بعد سکول نے نہ بچوں کا شور و غل سنا اور نہ ہی ماسٹر کی آواز اس کی سماعتوں کی نذر ہوئی۔ فقط سکول کا ڈھانچہ رہ گیا۔ کھوکھلا ڈھانچہ جہاں نہ اب ریکارڈ ہے نہ کتابیں اور نہ ہی کاپیاں ہیں، اور نہ ہی محکمہ تعلیم کو اس پر ترس آیا۔

بچوں کی زندگیاں تباہ ہو رہی ہوں تو ذمہ داراں جن کو کٹہرے میں لانا چاہیے لیکن ان کے اختیارات وسیع کیے جا چکے ہیں۔ انہیں ایم پی اے کی آشیرباد حاصل ہے انہیں مقتدر حلقوں کی سرپرستی حاصل ہے ان کے زیر نگرانی جو کچھ ہو رہا ہے وہ تکلیف دہ ہے۔اساتذہ کی تنخواہوں سے ایجوکیشن آفیسران بھتہ لے کر خانہ پوری میں مصروف ہیں۔

انہیں کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ایک ایسا نظام جس کا چشم دید گواہ ہوں۔ ایک ایسا نظام جہاں انصاف دور دور تک دکھائی نہ دے، ایک ایسا نظام جو لوگوں کو خوشامدی اور انفرادیت کی جانب لے رہا ہو، ایک ایسا نظام جہاں تعلیمی سلسلہ بیڑیوں میں بندھا ہو، ایک ایسا نظا م جہاں لوگوں کو بنیادی تعلیم کے لیے آفیسران کے دروازے کھٹکھٹانے پڑیں اور آفیسران چاپلوسی کرنے اور اپنی سیٹ بچانے میں مصروف ہوں،وہاں کے در و دیوار سے گھن آتی ہے۔ ایسے نظام کی دیواریں گرا کر اسے از سر نو تعمیر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔بلوچستان کا کوئی ایک نہیں بلکہ سینکڑوں گاؤں موجودہ تعلیمی نظام سے متاثر ہیں۔

مسئلہ ایک فرد کا نہیں پوری سوسائٹی اور ریجن کا ہے سب کو مل کر اس پر آواز اٹھانی چاہیے۔ چند ہم خیال دوستوں کی مشاورت سے ہم نے ایک ایسی مہم کا آغاز کردیا ہے جس کا خاص مقصد تعلیمی شعبے کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لے کر ان محرکات کو سامنے لانا ہے جو بالواسطہ یا بالاواسطہ شعبہ تعلیم پر اثرانداز ہو کر بچے اور بچیوں کو تعلیمی میدان سے دور رکھنے کا موجب بن رہے ہیں۔

اس مہم کوBalochistan Education System کا نام دیا گیاہے۔مہم کا آغاز ہم نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ایسے سکول سے کیا ہے جو گزشتہ چار سالوں سے بند ہے۔ بند سکول سے علاقہ کس قدر متاثر ہوا، بچوں کی زندگیاں کس قدر داؤ پر لگی ہوئی ہیں آنے والے وقتوں میں اس کے اثرات کیا ہوں گے، اس مہم کے اندر ان تمام کرداروں کو وقتاً فوقتاً زیر تحریر لایا جائے گا جو اس نظام کے براہ راست متاثرین میں شامل ہیں۔ اس مہم کا دائرہ کار بعد میں بڑھا دیا جائے گا، آپ بھی اس مہم کا حصہ بن سکتے ہیں۔