|

وقتِ اشاعت :   December 24 – 2019

تہران اور نئی دہلی نے اہم ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے منصوبے کی جلد تکمیل پر اتفاق کرلیا ہے۔

بھارت کے وزیر خارجہ نے امریکا کی جانب سے اقتصادی پابندیوں سے متاثرہ اسلامی جمہوریہ ملک کے دورے کے دوران مذکورہ پیش رفت سے متعلق آگاہ کیا۔

واضح رہے کہ چاہ بہار بندرگاہ بھارت، ایران اور افغانستان کے مشترکہ تعاون سے تیار ہورہی ہے جو بحر ہند میں پاکستان کی سرحد سے تقریباً 100 کلومیٹر مغرب میں واقع ہے۔

اس بندرگاہ کی تعمیر کا کام ایران پر پابندیوں میں کمی کے باوجود تعطل کا شکار رہا تھا لیکن بعد ازاں امریکا نے ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد اس پر مزید اقتصادی پابندیاں لگادی تھیں۔

اس سلسلے میں بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جےشنکر نے ٹوئٹ کی کہ ‘ابھی ایک بہت ہی نتیجہ خیز ایران مشترکہ کمیشن کا اجلاس اختتام ہوا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہمارے تعاون سے تمام منصوبے کا جائزہ لیا گیا اور اب ہمارے چاہ بہار منصوبے کو تیز کرنے پر اتفاق ہوا ہے’۔

واضح رہے کہ بھارتی وزیر خارجہ ایران کے 2 روزہ دورے پر تھے۔

خیال رہے کہ واشنگٹن نے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کی اور ‘زیادہ سے زیادہ دباؤ’ کی مہم کے تحت تہران پر پابندیاں عائد کردی گئیں جس کا مقصد تہران کے علاقائی کردار اور میزائل پروگرام کو کم کرنا ہے۔

دوسری جانب ایران کے صدر حسن روحانی نے بھارتی وزیر خارجہ کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس میں کہا کہ اس منصوبے سے خطے میں تجارت کو فروغ ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ ‘چاہ بہار-زاہدان ریلوے کو مکمل کرنا اور اسے ایران کی قومی ریلوے سے جوڑنا چاہ بہار بندرگاہ کے کردار کو بڑھا سکتا ہے’، علاقائی تجارت میں انقلاب آسکتا ہے اور ایک مختصر راستے پر سامان کی نقل و حرکت میں مدد مل سکتی ہے۔

ایرانی صدر کا مزید کہنا تھا کہ علاقائی سلامتی کو برقرار رکھنا ایران اور بھارت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘موجودہ صورتحال میں جہاں امریکا یکطرفہ پابندیاں عائد کررہا ہے وہیں ہمیں دو طرفہ تعاون کو جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے’۔

انہوں نے وضاحت کیے بغیر یہ بھی کہا کہ ‘یہ صورتحال یقینی طور پر قائم نہیں رہے گی اور امریکا جلد یا دیر ایران کے خلاف اپنا زیادہ سے زیادہ دباؤ ختم کرنے پر مجبور ہوجائے گا’۔

واضح رہے کہ امریکا نے مئی میں کچھ ممالک کے لیے پابندیوں میں تخفیف کو ختم کردیا تھا جس کے بعد بھارت نے تہران سے تیل کی خریداری معطل کردی تھی اور ایران کے محصولات کا سب سے بڑا ذریعہ ختم ہوگیا تھا۔

تاہم تعلقات میں کشیدگی کے باوجود ایران اور بھارت نے شراکت داری کو آگے بڑھانے اور اسے ترقی دینے کی کوشش کی۔