|

وقتِ اشاعت :   March 8 – 2020

عورت کا پہلا کام پہلی ذمہ داری سنبھلنا سنبھالنا۔ خاندان کے افرادکیساتھ برابر چلنا شوہر کے ساتھ سچی دوستی نبھانا اولاد اور عزت کے لیے سختیاں جھیلنا۔ مدر سری ہویا پدرسری نظام وقار کے ساتھ جینا خوشی اور غممیں خود کو ثابت قدمرکھنا’اعبار ’اعتماد کو مقدم رکھنا۔۔۔ جنس کی تفریق کے بغیر یہ جملے ہر انسان کے لئے مقدم خیال کیے جاتے ہیں۔ انسانی خوبیوں کا تقدس اور احترام آدمیت معآشروں کا روز اول سے وطیرہ رہاہے تاریخ کو ٹتولیے مرد جانے جہاں اپنے کام کاج کے لئے اوزار بنائے تو خواتین نے خوبصورت کشید کاری سے اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوایا ہے۔ جنگی ماحول میں مرد اور عورت دونوں کا حوصلہ و ہمت مثالی رہا ہے۔

مرد قتل ہوا ہے تو عورت نے بدلہ لینے کی قسم کھائی ہے مرد کی صوبتیں برداشٹ کرنے کے دوران برابر صوبتیں برداشت کیں ہیں غربت اور تنگدستی میں خاندان کے ساتھ مل کر آمنا صدقنا کیا ہے مرد نے جنگی ترانے لکھے توعورت نے لوریاں کہی ہیں مرد نے ہل چلانے کا کام کیا ہے تو عورت نے فصل چننے میں مدد کی ہے انگریز نے لے کر ظالم حکمرناوں کے خلاف عورتوں نے مردوں کے شانہ بشانہ جنگیں لڑی ہیں عزت آبرو حیاء معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے وقار کے ساتھ جینے کا واحد پیمانہ رہا ہے۔ عورت قبائلی جنگوں کے کل بھی خلاف تھی آج بھی ہے جنرل رانی اور حریم شاہ جیسی بد نامی سے پاک ہے اگر اس سماج کی عورت کمزور ہوتی تو اس کا مرد اس سے کہیں زیادہ کمزور ہوتا۔

جدید دور میں عورت اسمبلیوں میں اپنی ب ساط کے مطابق برائیوں سے پلوبچا کر بیتھی ہوئی ہے کسی بھی قسم کی ملازمت اور کاروبار میں صاف اور با عزت رہنے کی تگ و دو میں ہے یہاں کی عورت کے انہی اوصاف کے طفیل ابھی زیادہ برائیاں پیدانہیں ہوئی سماج میں جب تک عورت کااحترام اور مرد پر اعتبار اعتماد کی فضاء قائم رہے گی۔ معاشرہ میں مظالم کے خلاف مزاحمت ہوتی رہے گی انصاف کے لئے آواز اٹھتی رہے گی۔

عورت جتینی بھی پڑھ لکھ جائے وقار کے ساتھ جیتی رہے گی کیونکہ سماج میں ماں کی لوریاں بہنوں کے احترامکا فلسفہ ابھی باقی ہے جن پر زندگی نہیں کھلتی وہی معاشرے بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں مہر گڑھ کے باسیوں پر زندگی روز اول سے کھلی ہے۔ یہ لوگ ترقی میں نادیدہ نہیں۔نادید ے روٹی پرٹوٹ پڑتے ہیں نادیدے عورتوں سے سمگلنگ کرواتے ہیں ’نادیدے عورتوں کا سیاحت کے نام پر سودا کرتے ہیں۔ نادیدے عورت پیش کرکے ٹھیکے حاصل کرتے ہیں۔ نادیدے ایوانوں تک پہنچنے کے لئے عرت کا سہارہ لیتے ہیں۔ اور یہی نادیدے عورتوں کو استعمال کرکے باقی زندگی کسمپرسی میں گزارنے پر مجبورکرتے ہیں سرکس کے وقاصہ کے طورپر جو جوانی کی دھہلیز پار کرتے بھیک منگوں میں شامل ہوتی ہے۔ حالانکہ اچھی تربیت اوصاف اور محنت کے ساتھ بھی اپنے اہداف تک پہنچا سکتا ہے مگر جب سہولت کاری کیلئے عورت جہاں کمزوریوں کے ساتھ موجود ہو تومحں ت کی ضرورت کیا ہے۔

مشرقی سماج میں ایسا سوچنا موت ہے گناہ عظیم حرام ہیسماج کی ایسی ہی خوبیاں ’عزت و عظمت دوسروں کو برداشت نہیں ہورہی جبھی تو یونیورسٹی جیسے سکنڈل برپا کیے جاتے ہیں عورتوں کی تعلیم یافتہ ہونے کی راہ روکنے کی کوشش کی جاتی ہے کبھی انہیں ہاسٹلوں سے نکالنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو کبھی انہیں دیگر کونا کردہ گناہوں میں پھنسایا جاتا ہے۔ ہمارے سماج میں عورت محنت کش کے طورپر پہچان رکھتی ہے دوردراز علاقوں میں طبی سہولیات نہ ہونے کے باوجود آج بھی تمام تکالیف برداٹ کرکے بچے جن رہی ہے۔

میلوں دور سے پانی ڈھو ڈھو کر یہ ضرورت پوری کررہی ہیں جدید سہولیات سے محروم رہنے کے باوجود گھر بار کی سہولیات میں آج بھی یکتا ہے وہ سمو اور مست تو کلی ’بیبرگ وگراناز کی عشقی داستانوں کے ساتھ زندہ ہے اپنے مردوں کو ہیرو بنانے میں آج بھی اس کا کردار سب سے اہم ہے۔ واقعی ہیرو ہیں جنم لیتے ہیں جس سرزمین کی آبادی میں عورت کا برابر کا حصہ ہوتا ہے۔ سماج میں عورت اپنے حصے کاکام ایماندری اور جرات کے ساتھ کررہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کی مردوں سے زیدہ قربانیوں کی تاریخ نہیں لکھی گئی ہے عورت کے صبر و استقامت کو تلاشنا ابھی باقی ہے۔