|

وقتِ اشاعت :   April 24 – 2020

کرونا نے ادب پر بھی اپنے گہرے نقوش مرتکب کیئے ہیں بقول شخصے ادب تنقید حیات ہے۔۔ادب کی اس تعریف کو مشرق و مغرب میں ادب کی مقبول و معقول تعریف کہا جائے تو ہم شعر و ادب میں تاریخی سانحات کا عکس بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔ وبائے عام بھی شعری و نثری ادب کا موضوع ہے۔۔جس کی مثالیں دنیا کی بڑی زبانوں کے قدیم و جدید ادب میں مل سکتی ہیں۔۔کرونا کی صورت حال نے جس طرف پوری دنیا کو خوف کی بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔۔یہ اپنی جگہ ایسا عالمی سانحہ جسے ادب و صحافت نے اپنے مزاج سے دیکھا اور اپنے منظرناموں کا حصہ بنایا۔۔خصوصا”سوشل میڈیا پر کرونا نے وبائے عام کو ادب کے تخلیقی رویے کے طور پر دیکھنے کا رجحان تیزی سے ابھر رہا ہے۔اور اس بحث میں فارسی کے اس مشہور شعر کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔
چناں قحط سالے شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق
تصور فنا اور زندگی کی حقیقت بطور موضوع ادب میں کئی چہروں کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے۔
وبا عام نفسیاتی اثرات سے لے کر سماجی وجود کو ناصرف جام کر دیتی ہے بلکہ یہ ترقی کے سفر کو بھی پیچھے کی سمت دھکیل دیتی ہے۔گویا زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو وبا سے محفوظ نہیں۔۔وبا کی کئی اقسام ہیں۔۔جو ماضی میں مختلف ملکوں میں مختلف شکلوں میں اپنے بھیانک اثرات کے ساتھ ظاہر ہوتی رہی ہیں۔ کرونا کی وبا نے ماضی کے بھولے بسریادب کے ذکر کو دوبارہ تازہ کر دیا ہے۔اس باب میں ہر عہد پر غالب مرزا غالب کی اس پیش گوئی کا ذکر بھی بار بار ہو رہا ہے۔جس میں غالب یاسیت میں ہر سال اپنے مرنے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔مرزا اپنی ضعیف عمری میں سال کے آغاز پر کہتے کہ اس سال ضرورمر جاؤں گا۔ اتفاق سے ایک برس دھلی میں وبا پھوٹ پڑی لیکن غالب زندہ رہے۔کسی نے پوچھا کہ آپ تو پیش گوئی کے برعکس زندہ ہیں۔۔تو غالب نے فرمایا:
“وبائے عام میں مرنا مجھے گوارا نہ ہوا۔”
ان دنوں وبا میں جاں بحق ہونے والے ادیبوں کا ذکر بھی چھڑ گیا ہے۔جن میں صرف 33 برس کی عمر میں انفلوئنزا کی وبا کا شکار ہونے والے اور ”محاسنِ کلامِ غالب”جیسی لائق تحسین کتاب کے مصنف ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری مرکز نگاہ بن گئے ہیں۔

اس سلسلے میں روزنامہ ”جنگ“ سے وابستہ نامور فکاہیہ کالم نگار اور پندرہ روزہ ”نمکدان ”کے مدیر مجید لاہوری نے بھی مذکورہ وبا کا شکار ہوکرفوت ہوئے تھے۔
وبائے عام کے دنوں میں اردو ادب نے اس عالمی المیے کے مختلف منظروں کو تخلیقی رنگ سے دیکھا ہے۔۔گویا ہم کہہ سکتے ہیں۔اردو شعروادب نے وبائی منظرنامے کی تاریخ قلم بند کی ہے۔ یقینا”وبا پر لکھی گئی تخلیقات میں ہنگامی نوعیت اور فوری ردعمل کے معائب بھی محسوس ہوں گے۔۔تاہم خوش آئند امر یہ ہے کہ پاکستان،انڈیا اور دنیا کے دوسرے خطوں میں اردو شاعروں اور ادیبوں نے کئی اعلی نگارشات بھی کاغذ پر اتار کر اردو ادب کو ادبیات عالم کی نمائندہ آواز میں شامل کر لیا ہے۔۔ڈاکٹر اسحاق وردگ کا شعر دیکھیے:
ایسی ترقی پر تو رونا بنتا ہے
جس میں دہشت گرد کرونا بنتا ہے کرونا کی وبا پاکستان میں آنے کے بعد اس شعر کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سمیت سوشل میڈیا نے توجہ دی۔غزل ہی کے سلسلے میں درج ذیل اشعار نے بھی اپنی گہری معنویت اور وبائے عام کے سماجی اثرات کو خود میں جذب کرتے ہوئے انسانی احساسات کی عکاسی کی ہے۔
افسوس یہ وبا کے دنوں کی محبتیں
ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی گئے
سجاد بلوچ
زمیں پر ہم نے پھیلایا ہے شر کا وائرس کیا کیا
کہیں شکلِ انا کیا کیا کہیں رنگِ ہوس کیا کیا
جلیل عالی
اے زلفِ پراگندہ، زنجیر کشائی کر
مجھ سے تو نہ ٹوٹے گا زندانِ قرنطینہ
واعظ نے یہاں پر بھی کیا خطبہ فروشی کی
یہ شخص بھی کیا شے ہے، نادانِ قرنطینہ
ڈاکٹرمعین نظامی
اک بلا کْوکتی ہے گلیوں میں
سب سمٹ کر گھروں میں بیٹھ رہی
محمدجاویدانور
میں وہ محرومِ عنایت ہوں کہ جس نے تجھ سے
ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی
نعیم ضرار
مجھے یہ سارے مسیحا عزیز ہیں لیکن
یہ کہہ رہے ہیں کہ میں تم سے فاصلہ رکھوں
سعود عثمانی
ہوا کرتی ہے پْراسرار سی سرگوشیاں تاباں
تو کیا گھر میں نئے آسیب داخل ہونے والے ہیں؟
عبدالقادر تاباں
ہم فقیروں پہ ہو کرم یارب
شاہ زادے وبا کی زد پر ہیں
عارف امام
کچھ اپنے اشک بھی شامل کرودعاؤں میں
سنا ہے’اس سے وبا کے اثر بدلتے ہیں
شکیل جاذب
ہم محبت میں ہوش کھو بیٹھے
تم کرونا کی بات کرتے ہو
سعیداشعر
اتنا کافی ہے مجھے زندگی ساری کے لئے
وقت جو تْم نے دیا وقت گزاری کے لئے
حوصلہ دیکھ کے بیمار کا پلٹی ہے قضا
ورنہ پھرتی ہے وبا مرگ شماری کے لئے
صائمہ نورین بخاری