|

وقتِ اشاعت :   May 31 – 2020

انڈین حکومت کے ایک بیان کے مطابق نئی دلی نے پاکستانی سفارتی عملے کے دو ارکان مبینہ طور پر جاسوسی کرنے کے الزام میں حراست میں لیے ہیں۔

حکومت نے ان دونوں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دیتے ہوئے 24 گھنٹوں میں ملک سے نکل جانے کا حکم دیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کی سرگرمیاں سفارتی آداب کے خلاف تھیں۔

ادھر پاکستان کے وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں انڈیا کے اس اقدام کی مذمت کی گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سفارتی عملے کے دو اراکین کو جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی بنیاد پر 31 مئی کو حراست میں لیا گیا تھا اور نئی دلی میں پاکستانی سفارتخانے کی مداخلت کے بعد انھیں رہا کیا گیا۔

انڈین حکومت نے دلی میں موجود پاکستان کے سفارتی نمائندے کو پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکاروں کی مبینہ سرگرمیوں کے بارے میں ایک احتجاجی نوٹ بھی لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ پاکستان کے سفارتی عملے کا کوئی بھی رکن ایسا کوئی عمل نہ کرے جس سے انڈیا کو نقصان پہنچے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل سنہ 2016 میں میں بھی پاکستان اور انڈیا دونوں جانب سے جاسوسی کے الزام میں سفارتی عملے کو ’ناپسندیدہ‘ قرار دیتے ہوئے وطن چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔

اس وقت پاکستان میں انڈین سفارتی عملے کے آٹھ جبکہ انڈیا میں پاکستانی عملے کے چھ ارکان ناپسندیدہ قرار دیے گئے تھے۔

پاکستان کی جانب سے حالیہ الزامات کی تردید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ انڈیا کی جانب سے یہ اقدام میڈیا کے ذریعے چلائی گئی سوچی سمجھے مہم کے بعد کیا گیا ہے جو پاکستان مخالف پروپیگنڈا کا حصہ ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان ان اراکین پر کیے جانے والے تشدد کی بھی شدید مذمت کرتا ہے۔