|

وقتِ اشاعت :   August 15 – 2020

حضرت خالد بن ولید ؓ کا تعلق قریش کے ایک نمایاں خانوادے سے تھا۔ ابتدا ہی سے ان کی شناخت ایک جرات مند اور زیرک سپاہی کی تھی۔ قبول اسلام سے قبل مسلمانوں کے خلاف میدان اُحد میں وہ قریش کے گھڑ سواروں کے دودستوں میں سے ایک کی سربراہی کررہے تھے، جب کہ دوسرا دستہ عکرمہ کی سربراہی میں تھا۔ اُحد میں جب لشکر اسلام کے تابڑ توڑ حملے کے سامنے قریش کی پیادہ فوج کے قدم اکھڑ رہے تھے تو خالد دور سے میدان کا جائزہ لے رہے تھے اور موقعے کی تلاش میں تھے۔ اسی وقت اس جنگی حکمت کار کی نگاہوں نے دیکھا کہ عقب میں گھاٹی سے مسلمانوں کے تیر انداز میدان میں اپنی برتری دیکھتے ہوئے اپنی پوزیشن چھوڑ گئے ہیں۔ نبی ﷺ نے ان تیر اندازوں کو اس مقام پر جمے رہنے کی تاکید کی تھی لیکن یہاں موجود چند تیر اندازوں کے علاوہ دیگر اس فرمان سے روگردانی کے مرتکب ہوئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو میدان میں پہلی مرتبہ پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔

حضرت خالدؓ جنگی حکمت عملی کی خداداد صلاحیت رکھتے تھے اور قبول اسلام کے بعد کئی جنگوں میں وہ اسلامی لشکر کی برتری کا سبب بنے۔

خالدؓ بن ولید حضرت عمر کے قرابت دار اور بچپن کے دوست تھے۔ قریش نے جب اپنے اتحادیوں کے ساتھ تیسری مرتبہ مدینہ کے مسلمانوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں جنگِ خندق کا معرکہ ہوا تو رسول اکرم ﷺ کی جنگی حکمت کے سامنے عددی برتری ہونے کے باجود قریش کو شکست ہوتے دیکھ کر ان کا دل اسلام کی جانب مائل ہوا۔ غور و فکر کے بعد اہلِ قبیلہ کے سخت ردعمل کے خدشات کے باوجود انہوں نے اپنے دل کی آواز سنی اور 31مئی 629عیسیوی کو نبی ﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کرلی۔پیغمبر اکرم ﷺ حضرت خالدؓ کے قبولِ اسلام سے بہت خوش ہوئے۔

آپ ﷺ اس وقت بھی حضرت خالدؓ کی عسکری تدبر سے واقف تھے جب وہ دائرہ اسلام میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے اور اسے سراہتے بھی تھے۔ قبول اسلام کے بعد بھی حضرت خالدؓنے بعض مواقع پر کچھ تجاوز کیا تو ان کے معاملے میں درگزر کیا گیا، ایسی ہی ایک مثال بنی جذیمہ کا افسوس ناک واقعہ بھی ہے جب حضرت خالدؓ کو اکابر صحابہؓ کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک جنگی حکمت کار کے طور پر حضرت خالدؓ تاریخِ اسلام کی بے بدل شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ اس دور میں جنگی سالار صرف اپنی ذہانت ہی سے منصب پر قائم نہیں رہتے تھے۔

بلکہ انہیں قوتِ بازو سے حریفوں کو زیر کرنا ہوتا تھا۔ کئی جنگیں صرف میدان میں اتارے گئے سورماؤں کے بل پر جیتی جاتی تھیں کئی میں اسی بنا پر شکست ہوجایا کرتی تھی۔ حضرت خالدؓ کئی جنگوں میں شدید زخمی ہوئے۔ حنین کے بعد شدید زخموں کی پروا کیے بغیر حضرت خالدؓ نے بنو سلیم پربرتری حاصل کی۔ حضرت خالدؓ کا شمار عشرہئ مبشرہ اور سابقون الاولون میں نہیں ہوتا۔ تاہم ان کی جنگی مہارت کی بنا پر انہیں کئی مہمات میں اہم ذمے داریاں سونپی گئیں۔ موتہ میں انہوں نے سالار لشکر کی شہادت کے بعد کمان سنبھالی اور ایک خونیں شکست سے لشکر کو بچا کر واپس لائے۔

یہ مسلمانوں کی کسی جنگ سے پسپائی اختیار کرنے کی پہلی مثال تھی اس لیے اکثر مسلمان اس حکمت عملی سے ناخوش تھے۔ لیکن رسول ﷺ نے حضرت خالد ؓ کو سیف اللہ کا لقب عطا فرما کر اس حکمت عملی کی تائید فرمائی۔ نبی اکرم ﷺ کے مقرب اصحابؓ نے بخوشی حضرت خالدؓ کی سربراہی میں کئی معرکوں میں شرکت کی۔ نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے اپنے تشکیل دیے گئے 11بڑے دستوں میں سے حضرت خالدؓ کو سب سے اہم اور بڑے لشکر کا سالار مقرر کیا اور اسلام کے خلاف منظم ہونے والی قوتوں کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ حضرت خالدؓ نے تواتر اور کام یابی سے یہ ذمے داری نبھائی۔

سب سے پہلے طلیحہ اس کے بعد (بغیر جنگ کے) مالک بن نویرہ کی سرکوبی کی۔ یمامہ میں مسلیمہ کذاب اور اس کے ساتھیوں کا صفایا کرنے کے لیے بڑی مہم سر کی۔ حضرت خالدؓ نے کی جنگی کام یابیوں کے حاسدین بھی موجود تھے اور تاہم انہیں شک کا فائدہ دیا گیا اور انہوں نے مالک بن نویرہ کے ورثا کو دیت ادا کی۔ دنیا کے عظیم لوگوں کی زندگی میں صرف کام یابیاں اور درست اقدام ہی نہیں ہوتے، لیکن ناکامیاں ان کی ان کی عظمت میں کمی نہیں کرتیں۔فتنہئ ارتداد کی سرکوبی کے بعد حضرت ابو بکرؓ نے سلطنت فارس کا اور بالخصوص اس کے عراقی صوبے کی طرف توجہ کی۔

صدیوں سے قائم اس سلطنت کے مقابلے کے لیے حضرت خالدؓ نے کئی محاذوں پر تاریخ رقم کی۔ فارسی سلطنت کو عددی اکثریت اور جنگی تجربے میں مسلمانوں پر برتری حاصل تھی تاہم حضرت خالدؓ نے اپنی عسکری بصیرت سے دنیا پر حکمرانی کرنے والے ان لشکروں کو پس پا کردیا۔ فارسی فوج ساز و سامان سے لیس تھی اور ان کے جنرل جنگی حربوں کو خوب جانتے تھے لیکن آپ کی قیادت میں مسلمانوں نے سامان حرب کی کمی کے باوجود فتح حاصل کی۔ کچھ عرصے میں عراق کا صوبہ مسلمانوں کے ماتحت آگیا۔ سلطنت فارس نے اپنے علاقے واپس حاصل کرنے کے لیے کوششیں شروع کردیں جن کا مقابلہ کیا جانا تھا۔

اسی دوران ایک اہم قاصد خلیفہ کا اہم پیغام لے کر پہنچا کہ شام میں رومی فوج کے مقابل حضرت ابوعبیدہ کی سربراہی میں لڑنے والے لشکر کو کمک کی ضرورت ہے۔ حضرت خالدؓ نے اپنا نصف لشکر لے کر روانہ ہوئے۔ جلدی پہنچنے کے لیے انہوں نے ایک دشوار گزار بے آب و گیا صحرائی راستہ اختیار کیا۔ اس دوران حضرت ابو بکرؓ رحلت فرما چکے تھے اور حضرت عمر ؓ خلیفہ بن گئے تھے۔ حضرت عمرؓ کو اپنے احکامات سے تجاوز پسند نہیں تھا اس لیے آپ نے تادیب کے طور پر حضرت خالد کی تنزلی کرکے انہیں کمانڈر سے ایک عام سپاہی بنا دیا تھا۔ اس حوالے سے کئی چہ میگوئیاں ہوتی ہیں لیکن حضرت عمر ؓ ایک مثال بھی قائم کرنا چاہتے تھے۔

مسلمانوں میں یہ خیال جڑ پکڑنے لگا تھا کہ ان کی جنگی کام یابیاں حضرت خالدؓ کی مرہون منت ہیں، اس تصور کی اصلاح کے لیے بھی حضرت عمرؓ نے یہ فیصلہ کیا۔ حضرت خالدؓ اپنی جگہ کمانڈر بننے والے ابو عبیدہ الجراح ؓ کے ساتھ خدمات انجام دینے لگے۔ بازنطینی سلطنت کی افواج کا سامنا یرموک کے مقام پر مسلمانوں سے ہوا۔ بازنطینی فوج مکمل طور پر مسلح 2لاکھ فوجیوں پر مشتمل تھی اور مسلمانوں کی تعداد ان سے 8کے مقابلے میں ایک بنتی تھی۔ حضرت ابو عبیدہؓ کو اندازہ ہوگیا کہ ان حالات کا وہ مقابلہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے بلا جھجک سپہ سالار کی ذمے داریاں حضرت خالد کے سپرد کردیں۔

حضرت خالدؓ نے مسلمان فوج کی از سر نو صف بندی کی اور گھڑ سواروں کو ایک طرف رکھا۔ دریائے یرموک کے نزدیک یہ لڑائی اگست 636 کے چھے دنوں تک جاری رہی۔ یہ مقام اب شام و اردن اور شام و اسرائیل کی سرحد کے پاس بحر جلیلی کے مشرق میں واقع ہے۔ چھٹے دن حضرت خالد نے حضرت ضرار کی قیادت میں گھڑ سواروں کا حملہ شروع کروایا۔یہ ایک فیصلہ کُن فتح ثابت ہوئی جس نے شام سے بازنطینی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ مسلمانوں کی اس عظیم کامیابی کا سہرا حضرت خالد ؓ کے سر ہے۔ میجر جنرل جے ایف سی فلر نے اپنی کتاب میں جنگی حکمت عملی کی اعلیٰ مثال قرار دیا ہے۔

حضرت خالد ؓ نے ان حالات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا ایک بار پھر منوایا اس کے ساتھ ساتھ حضرت ابو عبیدہؓ کی بصیرت کا اعتراف کرنا بھی لازم ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھی کی جنگی صلاحیتوں کا درست وقت پر ادراک کرکے صرف مسلمانوں کی بھلائی کے لیے ان کے حق میں ذمے داری سے دست بردار ہوگئے۔کیا ہمارے سیاست دان کبھی اس تاریخ سے سبق حاصل کریں گے؟ حضرت عمرؓ نے بھی کمان کی اس تبدیلی پر حضرت ابو عبیدہؓ کی کوئی سرزنش نہیں کی۔ بلکہ اس کے بعد کسی شہر کے فتح ہونے تک حضرت خالد کو فوج کی کمان دی جاتی اور کام یابی کے بعد حضرت ابو عبیدہ قیدیوں اور مال غنیمت کی نگرانی کرتے تھے۔

جنگ یرموک اسلام ہی نہیں تاریخ عالم کی بھی ایک فیصلہ کُن جنگ تھی۔ اس مرحلے پر جہاں حضرت خالدؓ کی جنگی مہارت ثابت ہوئی وہیں حضرت ابو عبیدہ ؓ نے جس طرح وقت کی نزاکت کو بھانپ کر بروقت قیادت ان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا اس نے بھی تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے 41بڑی جنگوں میں شرکت کی۔ 15سال وہ میدان میں رہے اور اپنی زندگی کے صرف آخری سات برسوں میں 35معرکوں میں شامل ہوئے۔ انہوں نے کسی عہدہ و منصب کے بغیر بھی اپنے فرض کی ادائیگی اور نظم و نسق کی پابندی کی ایک ایسی روشن مثال قائم کی ہے جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔

ہماری فوج کی طاقت بھی اسی نظم و ضبط کی بنیاد پر قائم ہے۔ ملک کے قیام کے ساتھ ہی ہم نے اس کی بنیاد رکھ دی تھی لیکن آج کچھ عناصر اس ادارے کی جڑیں کمزور کرنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہمارے بعض سادہ لوح لوگ ایسے عناصر کے آلہ کار بنے گئے ہیں۔ ہماری فوج اور ہمارے ملک کو انیسویں صدی کے اواخر کے جرمنی کی طرح کے حالات کا سامنا ہے۔ جب تک نظم و ضبط کو ہر شے پر ترجیح دینے کے لیے حضرت خالدؓجیسی مثال ہمارے پیش نظر رہے گی، کوئی اس ملک کی جانب میلی نگاہ بھی نہیں اٹھا سکتا۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)