|

وقتِ اشاعت :   August 19 – 2020

ٹیسٹ کرکٹر کامران اکمل کا کہنا ہے کہ وہ انٹر نیشنل کرکٹ کے لیے تیار رہتے ہیں اور پرفارمنس بھی دیتے ہیں لیکن پھر وہ قومی ٹیم میں نہیں تو اس کی وجہ سلیکشن کمیٹی ہی بتا سکتی ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ان دنوں ڈومیسٹک کرکٹ سیزن کی تیاریوں میں مصروف ہے لیکن تاحال سیزن کے آغاز کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا جا سکا ہے جب کہ پی سی بی کو بائیو سیکیور ماحول بنانے کے لیے چیلنجز درپیش ہیں۔

وکٹ کیپر بیٹسمین کامران اکمل کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث ڈومیسٹک کرکٹ سیزن تاخیر کا شکار تو نہیں ہوا، ان دنوں پہلے بھی فرسٹ کلاس کرکٹ نہیں ہوتی ہے، ابھی وقت ہے تو پی سی بی کو حفاظتی اقدامات کے حوالے سے مکمل منصوبہ بندی کرنے چاہیے۔ 

انہوں نے کہا کہ کھلاڑیوں اور متعلقہ اسٹاف کی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے، کورونا وائرس کے سخت ایس او پیز کے ساتھ ڈومیسٹک کرکٹ سیزن کا آغاز ہونا چاہیے۔

کامران اکمل کا کہنا تھا کہ انگلینڈ نے مشکل حالات میں انٹر نیشنل کرکٹ کروائی ہے، وہاں ڈومیسٹک سیزن بھی جا ری ہے، ہمیں ان سے رہنمائی لینی چاہیے اور اسی طرح ہمیں بھی کرکٹ کا آغاز کرنا چاہیے۔

کامران اکمل سمجھتے ہیں کہ پی ایس ایل فائیو کے باقی ماندہ میچز کا انعقاد ہونا چاہیے، کسی ایک ٹیم کو اس وقت چیمپئن بنانے کا فیصلہ کرنا زیادتی ہو گی، باقی تین ٹیموں نے بھی ایک ماہ بڑی محنت کی ہے اس لیے سب کو یکساں موقع ملنا چاہیے اور باقی میچز پلے آف سے ہی ہونے چاہیئں۔

انہوں نے کہا کہ اب تو ونڈو خالی ہے، ایشیا کپ بھی نہیں ہو رہا اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی نہیں ہو رہا اس لیے پی ایس ایل کے میچز کا انعقاد ہو سکتا ہے، آئی پی ایل کے لیے غیر ملکی کھلاڑی آسکتے ہیں تو پی ایس ایل کے لیے کیوں نہیں آ سکتے؟  پاکستان میں کورونا وائرس کے حوالے سے صورتحال بھی کنٹرول میں ہے، باقی میچز پاکستان میں بھی ہو سکتے ہیں۔ 

وکٹ کیپر بیٹسمین کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ڈومیسٹک کرکٹ مکمل ایس او پیز کے ساتھ شروع کی جائے اور پھر اس کو سامنے رکھتے ہو ئے پی ایس ایل کے میچز کا انعقاد ہونا چاہیے۔

‏انہوں نے کہا کہ میں سارا سال ٹریننگ جاری رکھتا ہوں اور یہی وجہ ہے کہ مجھے کیرئیر میں فٹنس مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا، میں صرف انٹر نیشنل کرکٹ کے لیے ٹریننگ نہیں کرتا بلکہ ہر سطح کی کرکٹ کے لیے خود کو فٹ رکھتا ہوں، میں انٹر نیشنل کرکٹ کے لیے تیار رہتا ہوں پرفارمنس بھی دیتا ہوں، اگر میں قومی ٹیم میں نہیں ہوں تو اس کی وجہ سلیکشن کمیٹی ہی بتا سکتی ہے۔