|

وقتِ اشاعت :   September 6 – 2020

یوں تو بلوچستان بھر کی سڑکوں کے بارے میں لکھا جاسکتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر ایک شخص نے حب کو کراچی سے ملانے والے پل کی تصویر دے کر اس کی مخدوش صورت حال بارے بتایا کہ حالیہ سیلابی ریلوں نے اس پل کو کافی حد نقصان پہنچا یاہے اسکے پلرزتصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں کہ کس طرح سے جھک گئے ہیں ایسے میں آفرین ہے نیشنل ہائی وے حکام پر جنہوں نے اس کی نشاندہی سے ہی آنکھیں ا س طرح موندھ لی ہیں جس طرح کتوبر بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرتا ہے۔ اس طرح نیشنل ہائی وے حکام کی غفلت کاجس قدر ماتم کیا جائے کم ہے۔

کیونکہ تصویر میں پل کے پلرز کے جھکاؤ کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر مخدوش حالت میں ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس پر بھاری ٹرالرز سمیت ہزاروں گاڑیاں محوسفر ہیں۔ یہ پل اس قدر اونچائی پر بنایا گیا ہے کہ اگر خدانخواستہ اس کے پلرز زمین بوس ہوگئے تو اس سے درجنوں افراد کے لقمہ اجل بننے کا شدید خدشہ ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ نیشنل ہائی وے حکام اس مخدوش پل پر ٹریفک کو مکمل بند کرکے اس کی مرمت کرتے یا دوسرا پل بنواتے تاکہ کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والے پل پر ٹریفک کی روانی جاری رہتی لیکن حیرانی ہوتی ہے کہ ان کی غفلت سے مخدوش پل پر ٹریفک رواں دواں ہے۔

اللہ بھلا کرے اس شہری کا جس نے اسکی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر چلاتے ہوئے بتایا کہ وہ عام شہری ہے لیکن پل کی حالت دیکھ کر اسے پریشانی ہوتی ہے کہ خدانخواستہ کسی بڑے سانحہ سے قبل حکام تک یہ بات پہنچائی جائے۔ اس کے بقول حادثے کے بعد دیکھا گیا ہے کہ تمام ادارے حرکت میں آتے ہیں جبکہ حادثات کو روکنے کیلئے قبل از وقت اقدامات کرنے میں شدید غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اس پل کے بارے میں کئی سال قبل بلوچی ٹی وی کے ایک پروگرام میں بھی اس کی مخدوش صورت حال بارے فلم چلائی گئی تھی۔

یہ سین دیکھ کر میرے اوسان خطا ہوگئے کہ کس طرح بھاری گاڑیاں اس پل سے گزرتی ہیں یقین جانیے کہ میں نے اپنے سفر کے دوران اس پل پر سے گزرتے ہوئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعاکی کہ وہ ہمیں اپنے حفظ وامان میں رکھے کیونکہ پل کی مخدوش حالت سے ہر ذی شعور انسان خوف میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اب رہی سہی کسر اس شہری نے پوری کرکے اپنے آپ کو زندہ لوگوں میں شامل کرایا ورنہ یوں لگتا ہے کہ علاقے کے باسی یا بااثر افراد مردہ ہیں۔میں نے اپنے طورپر سوشل میڈیا پر چلنے والی اس رپورٹ کو بھی تصویر کے ساتھ علاقے کے نمائند گان تک ارسال کرکے اپنا حق ادا کردیا تاکہ وہ اپنی غفلت سے بیدار ہوں۔

اللہ نہ کرے کہ یہ پل گر کر درجنوں افراد کے موت کی وجہ بنے،اس سے قبل اس بارے میں فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔خوش قسمتی سے وزیراعلیٰ محترم جام کمال خان عالیانی کا حلقہ انتخاب بھی لسبیلہ ہے حب بھی ان کے حلقے میں آتا ہے توقع ہے کہ وہ اس کالم کی اشاعت کے فوری بعد اپنی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے نیشنل ہائی وے اتھارٹی حکام کو فوراً ان کے ائیر کنڈیشن کمروں سے نکال باہر کرکے پل کی مرمت کرانے میں اپنا کردار ادا کریں گے کیونکہ صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔پل کے پشتے اب مزید سیلابی ریلوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔

ان میں جھکاؤ کو تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے اس سے پہلے کہ یہ پل ایک خونی پل میں بدل جائے، وزیراعلیٰ صاحب کواز خود نوٹس لینا چائیے۔یہاں اس بات کو مجھ سمیت ہر ذی شعور شہری شدت کے ساتھ محسوس کرسکتا ہے کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے از خود نوٹس لینے کا کوئی انتظام نہیں غالباً میڈیا سے تعلق رکھنے والی ان کی ٹیم ان تک یہ بات نہیں پہنچائی کہ وہ اس پر کارروائی کرتے، اس کمی کو شدت کے ساتھ محسوس کیا جاسکتا ہے۔بذات خود وزیراعلیٰ موصوف انتہائی شریف الفنس شخصیت کے مالک ہیں صوم و صلواۃ کے پابند باریش وزیراعلیٰ ہیں دل میں ضرور درد رکھتے ہیں۔

لیکن یوں محسوس کیا جاتا ہے کہ ان کی ٹیم ورک میں کمی ہے، ان کے ہوتے ہوئے بلوچستان کی تمام سڑکیں تعمیر ہوتیں۔یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ بلوچستان کو بڑی آر سی ڈی شاہراہیں نصیب ہی نہیں،کوئٹہ کراچی سنگل روڈ پر سینکڑوں حادثات ہو چکے ہیں، کمشنر مکران طارق زہری سمیت ہزاروں افراد اب تک شہادت پا چکے ہیں۔ کوئٹہ ’چمن‘ کوئٹہ کراچی‘ کوئٹہ براستہ ژوب اسلام آباد پشاور‘ کوئٹہ سبی سکھر کی بڑی شاہرائیں اب تک سنگل ہیں جبکہ ملک بھر کی تمام سڑکیں ڈبل ٹریک بنائی گئی ہیں۔جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ ان صوبوں میں موٹر وے بنائے جارہے ہیں۔

نواز شریف کی توجہ صرف اور صرف پنجاب تک محدود تھی اب نئی حکومت کی وزیر نیشنل ہائی وے کی توجہ اپنے حلقہ انتخاب تک ہے حالانکہ بلوچستان پورے ملک کی نسبت 43فیصد سڑکیں رکھتا ہے تین صوبوں کی سڑکیں اس سے کم ہیں لیکن نیشنل ہائی وے حکام کی توجہ بلوچستان کے علاوہ دیگر صوبوں تک محدود ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا ہیڈ آفس جب اسلام آباد میں ہوگا تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ بلوچستان ستر سالوں سے مکمل نظر انداز چلا آرہا ہے۔ خضدار کے راستے لاڑکانہ کی سڑک کو 24سال ہوگئے ہیں کہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ بلوچستان کے وسائل کو رقبے کے لحاظ سے لیے جاتے ہیں جبکہ بجٹ میں اس کا حصہ آبادی کی بنیاد پر مختص کیا جاتا ہے۔ تو پھر ایسے میں کس طرح یہاں کے لوگ موٹر وے سڑکیں پائیں گے۔ سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے عوام آج بھی گیس کی سہولت سے محروم چلے آرہے ہیں جبکہ پورا ملک اس گیس سے مستفید ہورہا ہے آخر یہ ظلم و ستم کب تک روا جائے گا؟کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟